جہاں کہیں بهی امام علیہ السلام کی روایت یا راوی کا نام آجاتا، ان کا احترام کرتے، ائمہ کے بارے میں فرماتے تهے: سلام اللہ علیهم اجمعین، اور راوی کا نام لینے پر رحمۃ اللہ علیہ یا رضوان اللہ علیہ فرماتے۔ اور یہ عشق اہل بیت طہارت ہی تها جن کی دفاع میں انہوں نے کشف اسرار لکهی، کئی دفعہ ایسا ہوا کہ جب ائمہ اطہار علیہ السلام کی روایت نقل فرماتے ساته میں ان کے حالات بهی بیان کرتے: تاکہ اسلامی مسائل کو کے ساته شاگردوں کی روحانی اور معنوی پرورش بهی ہوسکے۔
شاگردوں کو اجتهادی راستے کی سہولت
کیونکہ استاد کا درس اور تدریس کا طریقہ تحقیقی تها، شاگرد سال دو سال میں تحقیق کے گردش میں آجاتا، اور درس سے پہلے یا بعد میں خصوصی سؤالوں سے بہت جلدی اجتہادی راستے کی تشخیص کرکے اس پرگامزن ہوجاتا۔
اجتہاد اور تحقیق کے لئے حوصلہ افزائی
رواج تو یہی ہے کہ جب مبلغ منبر پر بیٹه جاتا ہے تو سب کو چاہئے کہ خاموشی سے اس کو سنے، لیکن درس میں ایسا نہیں ہوتا، وہاں شاگرد کو اجازت ہونی چاہئے تاکہ ذهن میں جو بهی سوال آئے وہ پوچه سکے، کئی بار ہوا کہ شاگرد امام کے درس میں سوال نہیں پوچهتے تو امام اجتہاد اور تحقیق کے راستے میں حوصلہ افزائی کے لئے ان سے فرماتے: یہ مجلس تو نہیں، آپ لوگ کیوں میرے مطالب پر اعتراض نہیں کرتے۔