حوزہ علمیہ قم میں حضرت امام خمینی کے شاگرد حجت الاسلام والمسلمین مصطفی زمانی کی کچه یادیں
وقت پر پہنچنے میں حساسیت
ان دنوں قم میں ٹیکسی اور بس نہیں تهے، اور بہت کم تعداد میں صرف بگهیاں ہوتی تهی، جو طالب علم ان کے درسوں میں پہنچنا چاہتے وہ ایک گهنٹہ پیادہ سفر کرتے، انہوں نے استاد سے سیکها تها کہ راستے کو ہم جماعتوں کے ساته مباحثہ میں طے کرنا ہے امام کا درس صبح آٹه بجے شروع ہوتا، وقت کے معاملے میں اتنے حساس تهے کہ اگر کوئی راستے میں بات کرنا چاہتا تو وہ ان کو روکه نہیں پاتا کہ یہ اپنے منزل پر دیر سے پہنچے، بلکہ وہ چلتے چلتے راستے میں ہی ان کے سوالوں کے جواب دیتے تهے۔
گذشتہ مطالب کو سمجهنا اور اس کی تقسیم بندی کرنا
امام ہر موضوع پر درس دینے سے پہلے اس کو نہ صرف یہ کہ مطالعہ اور اس کی تقسیم بندی کرتے بلکہ وہ اس موضوع پر مباحثہ کرتے اور اپنی اجتهادی نظر بهی بیان کرتے اور ایک مخصوص انداز سے اظهار خیال کرتے اور دلائل کو بیان فرماتے، دوسرے لفظوں میں آپ پہلے خود مطالب کو سمجهتے اور ان کی موضوعات میں تقسیم بندی کرتے، یہ خود درس دینے کی ایک بہترین روش تهی جو شاگرد کو محقق بناتی ہے۔
احترام سے فقہا کے مطالب کو نقل کرنا
جب وہ چاہتے کہ کسی مطلب کو دوسرے فقہا سے نقل کریں احترام سے ان کو یاد کرتے، چاہے ان کے فقہی مطلب سے اختلاف نظر بهی رکهتے اور اس سے متفق بهی نہ ہوتے پهر بهی ایک خاص احترام سے اس دانشمند کے نظر کو بیان فرماتے اور پر علمی استدلال سے اس کو مسترد کرتے اور ان کو مرحوم کہہ کر یاد فرماتے، اور بعض اوقات "رضوان اللہ تعالی علیہ" علماء کے نام کے ساته لگاتے، جو کتابیں آپ کی نظر میں اجتهاد کے لئے قابل استعمال نہیں ہوتی ان کے مصنف کا نام احترام کے ساته لے کر ان کو مسترد کر دیتے، مثلا فرماتے تهے: «روایت «غوالى اللئالى» کی سند نہیں ہے اور اس سے استدلال نہیں ہوسکتا۔
درس میں ائمہ علیہم السلام کا بیان
جہاں کہیں بهی امام علیہ السلام کی روایت یا راوی کا نام آجاتا، ان کا احترام کرتے، ائمہ کے بارے میں فرماتے تهے: سلام اللہ علیهم اجمعین، اور راوی کا نام لینے پر رحمۃ اللہ علیہ یا رضوان اللہ علیہ فرماتے۔ اور یہ عشق اہل بیت طہارت ہی تها جن کی دفاع میں انہوں نے کشف اسرار لکهی، کئی دفعہ ایسا ہوا کہ جب ائمہ اطہار علیہ السلام کی روایت نقل فرماتے ساته میں ان کے حالات بهی بیان کرتے: تاکہ اسلامی مسائل کو کے ساته شاگردوں کی روحانی اور معنوی پرورش بهی ہوسکے۔
شاگردوں کو اجتهادی راستے کی سہولت
کیونکہ استاد کا درس اور تدریس کا طریقہ تحقیقی تها، شاگرد سال دو سال میں تحقیق کے گردش میں آجاتا، اور درس سے پہلے یا بعد میں خصوصی سؤالوں سے بہت جلدی اجتہادی راستے کی تشخیص کرکے اس پرگامزن ہوجاتا۔
اجتہاد اور تحقیق کے لئے حوصلہ افزائی
رواج تو یہی ہے کہ جب مبلغ منبر پر بیٹه جاتا ہے تو سب کو چاہئے کہ خاموشی سے اس کو سنے، لیکن درس میں ایسا نہیں ہوتا، وہاں شاگرد کو اجازت ہونی چاہئے تاکہ ذهن میں جو بهی سوال آئے وہ پوچه سکے، کئی بار ہوا کہ شاگرد امام کے درس میں سوال نہیں پوچهتے تو امام اجتہاد اور تحقیق کے راستے میں حوصلہ افزائی کے لئے ان سے فرماتے: یہ مجلس تو نہیں، آپ لوگ کیوں میرے مطالب پر اعتراض نہیں کرتے۔