حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا:"طوبی لمن أخلص لله عمله و علمه وحبه و بغضه و أخذه و ترکه و کلامه و صمته و فعله و قوله"
خوش قسمت ہے وہ شخص نے جس کا کردار اور علم، دوستی اور دشمنی کرنا، اپنانا اور چهوڑ دینا، بولنا اور چپ رہنا اور اسی طرح اس کا کردار اور گفتار صرف اللہ کے لئے خاص ہو۔(تحف العقول ص 100)
وہ چیز جو یقینی ہے وہ اپنے نفسانی خواہشات سے مقابلہ کرنا اوراپنے آپ کو بہتر بنانا ہے تاکہ اخلاص کا راستہ اس کے لئے کهول دیا جائے اور نتیجہ میں عمیق خلوص کو انسان حاصل کرسکے، یہ سیدها راستہ اللہ کو چاہنے کا راستہ ہے اور اس راستے میں قدم اٹهانا، البتہ اس راستے میں قدم اٹهانے کے لئے شیر کا دل، استقلال اور مردانگی کی ضرورت ہوتی ہے، خود کو نابود کرنا اور صرف اللہ کی ذات کو یاد رکهنا ہوتا ہے تمام کاموں میں اخلاص کے ساته، تاکہ علم، عمل، حب اور بغض، لین دین کے معاملات، بولنا اور خاموشی اختیار کرنا، قول اور فعل یہ سب خدائی رنگ پیدا کرسکیں۔ اور خود پسندی کو اپنے اندر سے ختم کردے، بے شک امام خمینی کے مطلق ہم ایک شاندار تعریف اس طرح کرسکتے ہیں۔
مجهے یاد ہے جب ہم امام خمینی کے شاگرد اور دوست مرحوم آیت اللہ عمید زنجانی کے ہاں بیٹهے ہوئے تهے اور وہ مرحوم نجف کے واقعیات کچه اس طرح نقل کررہے تهے کہ:
امام خمینی نجف کے حالات اور لوگوں کے تائثرات ہم طالب علموں سے دریافت کیا کرتے تهے اور طالب علم بهی بغیر کسی کم و بیشی کے اور جزئیات کے ساته ان کو آگاہ کرتے تهے، جیسے کسی نے ان کو بتایا کہ لوگ کہتے آپ کا عمامہ اور محاسن چهوٹے ہیں جو ایک مرجع کے لئے مناسب نہیں امام نے بغیر کسی تاخیر کے جواب میں فرمایا کہہ دیں میں مشرک نہیں ہوں
اس واقعے کی تایید موسسہ تنظیم ونشرآثار امام خمینی ؒ کی طرف سے لکهی گئی کتاب "برداشتهایی از سیره امام خمینی"سے ہو سکتی ہے جو اس کتاب کےصفحہ نمبر ۲۷۵ ، جلد ۴ پر درج ہے اور اس خدا خواہ انسان کا درس یہ ہے کہ:
بہت سی چیزیں انسان کو بیچارگی میں مبتلا کر دیتی ہیں اور اس کو تہذیب اور حصول علم سے روکه لیتی ہیں، ان میں سے بعض لوگوں کے لئے یہی عمامہ اور داڑهی سبب بنتی ہے ، جب ان کا عمامہ توڑا سا بڑا ہو جاتا ہے ، اور ان کی داڑهی بڑه جاتی ہے تو اگر وہ مہذب نہ ہوں تو وہ حصول علم ترک کر دیتے ہیں یہ بہت مشکل ہے کہ آپ اپنے نفس امارہ کو پاؤں تلے روندتے ہوئے کسی کے درس میں شرکت کریں، شیخ طوسی علیہ الرحمہ پچاس سال کی عمر میں دو سال درس میں جاتے رہے ، جبکہ ان میں سے بعض کتابیں انہوں نے بیس سے تیس سال کی عمر میں لکهی ہیں کتاب تہذیب کو تقریباً انہوں نے اتنی ہی عمر میں لکها تها، لیکن اس مقام پر پہونچنے کے باوجود وہ باون سال کی عمر میں مرحوم سید مرتضی علیہ الرحمہ کے درس میں حاضر ہوتے تهے۔
اللہ نہ کرے کہ روحانی مقامات اور کمالات پر پہونچنے سے پہلے انسان کی داڑهی اور عمامہ بڑا ہوجائے، جس کی وجہ سے وہ تمام علمی اور معنوی کمالات اور برکات سے پیچهے رہ جاتا ہے جب تک داڑهی میں سفیدی نہیں لگی کچه کرلیں، لوگوں کے توجہ کا مرکز بنے سے پہلے اپنے حال پر فکر کریں خدا نہ کرے کہ انسان اس سے پہلے کے خود کو ٹیک کرے لوگ اس سے رجوع کریں اور لوگوں کے اندر مقام اور جگہ بنا سکے اور خود کو کهو دے، اس سے پہلے کہ آپ کے اختیارات آپ سے چهین لیے جائیں خود کو بنائیں اوراپنی اصلاح کریں اخلاق حسنہ سے خود کو آراستہ کریں، اخلاقی برائیوں سے خود دوری اختیار کریں، درس اور بحث میں اخلاص پیدا کریں تاکہ وہ آپ کو خدا کے قریب کرسکے، اگر نیت خالص نہ ہو تو انسان اللہ کی بارگاہ سے دور ہوجاتا ہے ، ایسا نہ ہو کہ جب ستر سال بعد آپ کے نامہ اعمال کو کهولا جائے تو العیاذ باللہ ، اللہ سے آپ ستر سال کا فاصلہ اختیار کرچکے ہوں۔
(جهاد اکبر، ص: 23-21)