آیت اللہ ہاشمی رفسنجانی ویب سائٹ کے رپورٹ سے، سنہ ۱۳۶۲ ه ش میں دئیے گئے نماز جمعہ کے خطبہ کا منتخب متن:
آج ہم مطمئن ہیں کہ ملکی حکام اسی چیز کا طالب ہیں جو عوام چاہتے ہیں اور مطمئن ہیں کہ عوام امام کے بتائے ہوئے راستے کو چاہتے ہیں اور اسی پر چلنا چاہتے ہیں اس لئے ہمیں کوئی خوف نہیں اور یہ قائد کی عوام پر مکمل اعتماد ہے۔
اس کو ہمیں اسلامی تاریخ کے اعزازات میں دنیا کی انتخابات کے تاریخ میں درج کر لینی چاہیے اور دنیا کے تمام ڈیموکریسی کے دعویداروں کے مقابلے میں اس کو ایک عظیم ڈیموکریسی اور عوامی جمہوری اسلامی حکومت کے طور پر شمار کروانا چاہیے۔
البتہ ہماری آواز کمزور اور ہمارے وسائل کم ہیں اور ہمارا دشمن ہمارے اس اعزاز کو نظر انداز کرتا ہے یہاں تک کہ وہ اس کی بهی کوئی غلط تفسیر کریں گے، موجودہ آزادی کے باوجود اس میں بهی بات نکالیں گے، یہ تو ان سے متوقع ہے کچه داخلی افراد سے بہی یہی متوقع ہے، لیکن ہم جانتے ہیں کہ ہم کیا کر رہے ہیں۔
ایک اور بہت اہم نکتہ یہ ہے کہ امام نے ان لوگوں کے بارے میں اظہار کیا جو کہتے تهے مجتہدین اس ہدایت کا حق رکهتے ہیں یہ ایک بہت بڑی بات ہے۔
کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ یہاں اس ملک میں اجتہاد اور مجتہد جیسے الفاظ کتنے مقدس ہیں اور جن کو یہ مقدس عنوان دیا جاتا ہے وہ لوگوں کے لئے کتنے قابل احترام ہیں، ان لوگوں نے کہا تها چونکہ یہ حکومت، الہی اور امام زمانہ کی حکومت ہے اور فقیہ اور مجتہد جامع شرائط حکومت میں نائب ہیں اور اس دلیل سے اس طرح کے معاملات میں جو کہ اسمبلی بنے پر اختتام پذیر ہو اور ارادہ رکهتے ہوں یہ حق
صرف مجتہدین کے پاس ہونا چاہیے کیونکہ وہ جانشین امام زمانہ ہیں لہذا وہ ایسے مسائل میں ہدایت کرنے کا حق رکهتے ہیں اور ایسا نہیں ہو سکتا کہ ہم ایسے اہم مسائل گلیوں اور بازار کے لوگوں سے حل کروائیں یہ بات ظاہر میں قبول کرنے کے قابل ہے لیکن یہ عوام کو دهوکہ دینے کے لئے بهی ہو سکتی ہے۔
جیسے ہی امام کے کانوں تک یہ بات پہنچی جو شاید کہنے والے نے صاف نیتی سے کی ہو اور وہ سازش سے بے خبر ہو انہوں نے پہلی فرصت میں ہی اس مسئلہ کو محکوم کیا۔
امام کی یہ بہت ہی دلچسپ بات تهی، اور یہ ان کی تاریخی باتوں میں سے ہے اور اس کو ایک سنگ میل کے عنوان سے ہمارے تاریخ میں لکه لینا چاہیے، امام حق بجانب تهے کہ انہوں نے لوگوں کو اس انقلاب کا سہارا قرار دیا اور نہ یہ کہ امام نے ایسا کیا بلکہ یہ اسلام ہے جو یہی چاہتا ہے قرآن ہے کہ یہ چاہتا ہے کہ حکومت کی بنیاد لوگوں کے افکار سے لئے جائیں۔
یہ ٹیک ہے کہ اسلام میں حکومت الہی حکومت ہوتی ہے، امام لوگوں کی مرضی کے بغیر ان پر حکومت نہیں کرسکتا اور نہ ہی یہ ٹیک ہے کہ وہ لوگوں پر حکومت کرے اور یہ بات ہمارے دینی معارف میں مانی جا چکی ہے۔
امام خمینی نے اس غلطی کا جس میں وہ مبتلا تهے اصلاح کیا اور سازش کو بهی بانجه کر دیا، امام نے فرمایا: نہیں! ایسی باتیں نہ کریں اور یہ اس بات سے بهی خطرناک ہے کہ دین سیاست سے جدا ہے، اور یقیناً زیادہ خطرناک ہے۔
اگر ہم نے لوگوں کو یہ باور کروا دیا کہ علما صرف فیصلہ کرنے کا حق رکهتے ہیں اور عوام صرف ایک کٹه پتلی کی طرح ہیں اور وہ صرف ایک بے ارادہ موجود کی طرح گاڑی میں بیٹه کر سفر کرتے رہیں اگر ایسی فکر کو عوام میں پیدا کیا گیا اور عوام کو ایسے مسائل سے دور رکها گیا تو جان لیں کہ جلد ہی اس انقلاب اور جمہوری مملکت کا نام و نشان نہیں ہوگا۔
یہ باتیں وہی لوگ کررہے ہیں کہ کل جب لوگ لڑ رہے تهے تو یہ کہہ رہے تهے کہ اسلام کو سیاست میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے دین سیاست سے جدا ہے، اور یہی تهے جو کہتے تهے کہ جب تک امام زمانہ کی حکومت نہیں آتی اس وقت تک اسلامی حکومت کا قیام نہیں ہونا چاہیے، اور یہی تهے جو کہتے تهے کہ اگر کسی نے امام کی حکومت سے پہلے حکومت کا قیام کیا تو وہ اس مرغ کی طرح ہے جو
پر نکلنے سے پہلے ہی اڑنا چاہتا ہو۔
اب جو لوگ اس طرف تهے وہ ممکن ہے کہہ دیں کہ یہ ایک بندہ نہیں بلکہ یہ وہی فکری راستہ ہے لیکن آج اس کے الٹ کہہ رہے ہیں اب جبکہ طالب علم اور عوام اپنے رہنما کے سایہ میں مقابلہ کرچکے اور لوگوں نے خون دیا اور جیت چکے ہیں اور حکومت کو اسلامی بنانا چاہتے ہیں تو یہ لوگ کہتے ہیں کہ عوام اس میں شمولیت کا حق نہیں رکهتے۔