امام(رح) نے آخری عید فطر پر کیا کہا؟

امام(رح) نے آخری عید فطر پر کیا کہا؟

جوان متوجہ ہوں کہ جوانی میں اصلاح کریں انسان جتنا سن رسیدہ ہو جاتا ہے انتا ہی دنیا پرستی میں آگے چلا جاتا ہے، لیکن جوان ملکوت سے نزدیک ہوتا ہے۔

امام خمینی(رہ) ۲۷ اردیبہشت ۱۳۶۷ه ش (10 جنوری 1948ء) کو عید فطر کے دن صدر، وزیراعظم، اسلامی پارلیمنٹ کے سربراہ اور دوسری شخصیات سے ملاقات کے دوران، اللہ کی مہمان نوازی اور روحانی ابعاد کے بارے میں فرمایا تها: (یہ آخری عید تهی جس میں مسلمانوں نے ان کے قیمتی بیان کو ان سے سنا) اس ضیافت میں سب کچه ترک کرنا ہے، خواہشات کا ترک کرنا جیسے کهانے اور پینے کی خواہشات کا۔

جماران رپورٹ کے مطابق، امام خمینی(رح) کے بیان کا متن یہ ہے:

ضیافت الہی کے روحانی ابعاد

میں جس چیز کے بارے میں عرض کرنا چاہتا ہوں وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے خطبے میں ایک فقرہ کے بارے میں ہے اور وہ جملہ یہ ہے کہ اللہ نے تم لوگوں کو اپنا مہمان بنایا ہے اور تمهیں مہمان بنے کی دعوت دی ہے آپ لوگ رمضان کے مہینے میں اللہ کے مہمان ہیں اور مہمان نواز اللہ ہے اور اس کی مخلوق مہمان ہے البتہ یہ ضیافت الہی اولیاء کُمّل الهی کی طرح نہیں کہ ہم اس کا خیال کریں، یا اس تک ہمارا ہاته پہنچ پائے، بلکہ ہمیں دیکهنا ہے کہ یہ ضیافت کیا ہے اور ہم کتنے حقدار ہیں اس ضیافت کے، اس بات کا خیال رکهتے ہوئے کہ یہ سارا عالم اللہ کی رحمت میں ہے اور جو بهی ہے اس کی رحمت ہے، اور ہر چیز اس کی رحمت کے شامل حال ہے، لیکن ضیافت کچه اور ہے اللہ کی طرف سے دعوت کچه اور ہے، اس ضیافت میں ترک کرنا ہے خواہشات کا ترک کرنا جیسے کهانے اور پینے کی خواہش کو ترک کرنا اور دوسری وہ خواہشات جن کا انسان تقاضا کرتا ہے، اللہ نے ہمیں دعوت دی ہے وہ چاہتا ہے ہمیں ایسی مہمانی پر دعوت کرے جہاں ترک کے علاوہ کچه نہیں انا کا ترک، خواہشات کا ترک، شہوات کا ترک، یہ سب اس مہمانی کا حصہ ہیں اب ہمیں دیکهنا ہوگا کہ ہم مہمان ہیں یا نہیں، ہم نے اس مہمانی کو قبول کیا ہے یا نہیں ہم نے اس ضیافت سے استفادہ کیا ہے یا نہیں البتہ میری طرح کے لوگوں کا حساب کرام الکاتبین کے پاس ہے، لیکن میں آپ لوگوں اور جن تک یہ الفاظ پہنچے خصوصاً نوجوان سے عرض کرنا چاہتا ہوں کہ آیا وہ اس مہمانی کا حصہ بنے ہیں مہمان رہ چکے ہیں خواہشات چهوڑ رکهیں ہیں یا میری طرح ہیں۔

جوان متوجہ ہوں کہ جوانی میں اصلاح کریں انسان جتنا سن رسیدہ ہو جاتا ہے انتا ہی دنیا پرستی میں آگے چلا جاتا ہے، لیکن جوان ملکوت سے نزدیک ہوتا ہے۔

عمر رسیدہ پر جتنی گذرتی ہے اور جتنی ان کے عمر میں اضافہ ہوتا جاتا ہے کچه چیزیں ان کو خدا سے دور کرتی ہیں آپ لوگ فکر کریں کہ اگر اس ضیافت الہی سے ٹیک استفادہ کیا تو اس وقت آپ کی عید ہے عید اس کی ہے جو اس ضیافت سے مستفید ہوا ہو، اس ضیافت سے جس طرح ظاہری خواہشات کو ترک کیا ہو اسی طرح باطنی خواہشات سے بهی دوری اختیار کرے، اس عالم میں جتنا بهی فساد ہے اس لئے ہے کہ اس ضیافت سے دور ہو جائیں اور اگر دور نہیں ہیں تو اس سے استفادہ نہ کرسکیں، سب لوگ مخاطب ہیں سب کو دعوت ہے سب اللہ کے مہمان ہیں ترک کرنے کے لئے مہمان ہیں اگر انسان میں تهوڑی سی بهی نفس پرستی ہے تو یہ مہمان نہیں بنا اگر مہمان بنا بهی ہے تو اس نے استفادہ نہیں کیا، دنیا میں جتنے بهی تنازعات آپ دیکه رہے ہیں سب اسی لئے ہیں کہ اس ضیافت سے استفادہ نہیں کیا، اس مہمانی میں نہیں جاسکے، خدا کے دعوت کو قبول نہیں کیا۔

کوشش کریں کہ اس دعوت پر لبیک کہہ سکیں، یہاں راستے کو انتخاب کریں اگر راستہ مل گیا تو مسائل حل ہیں، یہ جو ہمارے مسائل حل نہیں ہوتے وہ اس لئے کہ ضیافت الہی کو قبول نہیں کیا، اور رمضان المبارک مِیں تو بلکل بهی قبول نہیں کیا۔ صرف کهانے اور پینے سے اجتناب کیا ہے اور جو ہونا چاہیے تها وہ نہیں ہوا اگر نفسانی خواہشات نہ ہو تو انسان فطرت الہی پر ہوتا ہے فطرت، فطرت الہی ہے، اور سب اس کی طرف متوجہ ہوتے ہیں لیکن دنیا پر توجہ جو دوسرے نمبر پر ہے مسخ ہونے والی ہے یہ سامنے آجاتی ہے اور مسائل پیدا کرتی ہے۔

اگر دیکهیں دنیا میں ایک جنگ برپا ہے اور خدا نخواستہ آپ کے درمیان بهی اس کے نمونے ہوں گے، جان لیں اور ضیافت الہی میں آ جائیں، رمضان المبارک کو آپ نے درک نہیں کیا رمضان نے آپ کا استقبال کیا: اقْبَلَ عَلیکُمْ شَهْرُ الله‌ لیکن ہم نے اس کو مسترد کردیا اور دبا دیا۔

صحیفه امام، ج21، ص 46-44

ای میل کریں