اسلام ٹائمز کے مطابق، حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ نے 2006ء میں اسرائیل کے خلاف 33 روزہ جنگ (جنگ تموز) میں عظیم کامیابی کی آٹهویں سالگرہ کی مناسبت سے تقریر کرتے ہوئے انتہائی اہم موضوعات پر روشنی ڈالی ہے۔ انہوں نے اسرائیل اور تکفیریت کو خطے کیلئے دو بڑے خطرے قرار دیا اور کہا کہ ان کا مقابلہ کرنے کیلئے خطے کے ممالک اور اقوام کے درمیان اتحاد اشد ضروری ہے۔ اسی طرح انہوں نے 2006ء میں اسرائیل کی جانب سے لبنان پر مسلط گئی 33 روزہ جنگ کو ایک بڑی اور حقیقی جنگ قرار دیا اور کہا کہ اس جنگ کا مقصد صرف حزب اللہ کو غیر مسلح کرنا نہ تها بلکہ اسرائیل خطے میں موجود اسلامی مزاحمت کا مکمل خاتمہ کرنا چاہتا تها۔ اسلام ٹائمز اردو اس تقریر کے بعض اہم نکات کا ترجمہ قارئین کی خدمت میں پیش کر رہا ہے۔
سید حسن نصراللہ نے اپنی تقریر کے آغاز میں 33 روزہ جنگ میں کامیابی کی سالگرہ کو استقامت، ثابت قدمی اور تاریخی کارنامے کی سالگرہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہم اس جنگ میں شہید ہونے والے افراد کی روح پر سلام بهیجتے ہیں اور اسرائیل کے خلاف مقابلے میں شریک تمام قوتوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل نے کہا کہ ہم ان تمام افراد کو سلام پیش کرتے ہیں جنہوں نے اسرائیل کے خلاف ہماری مدد کی اور ہماری حمایت کرنے میں خطرات کو مول لیا، خاص طور پر ایران اور شام کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔
سید حسن نصراللہ نے تاکید کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ اور اسرائیل کا یہ نیا منصوبہ ماضی کے منصوبوں سے کہیں زیادہ خطرناک اور تباہ کن ہے، کیونکہ اس کی بنیاد ماضی کی طرح خطے کے موجودہ سیاسی نظاموں کے خاتمے اور ان کی جگہ نئے نظام متعارف کروانے پر استوار نہیں بلکہ اس نئے منصوبے میں خطے میں موجود حکومتوں، فوجوں، اقوام اور سیاسی نظاموں کا مکمل خاتمہ اور نابودی شامل ہے۔ لہذا اس نئے منصوبے کا مقصد خطے کو چهوٹے چهوٹے ٹکڑوں میں تقسیم کرنا ہے۔ حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل نے کہا کہ اسرائیل اس نئے منصوبے کے تحت صرف خطے کو ہی ٹکڑے ٹکڑے نہیں کرنا چاہتا بلکہ خطے میں موجود اقوام اور حکومتوں کو بهی ٹکڑے ٹکڑے کر دینا چاہتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ اور اسرائیل پورے خطے کو ایسے شدید بحران کا شکار کر دینا چاہتے ہیں جس سے نکلنے کیلئے خطے کے لوگ ان کا ہر حکم ماننے کو تیار نظر آئیں، لہذا خطے کے حقیقی دشمن کو ایک نجات دہندہ کے طور پر پیش کرنا چاہتے ہیں۔ اس نئے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کیلئے اسرائیل نے خطے میں اسلامی مزاحمت کو نشانہ بنایا ہے۔ اسی طرح اس منصوبے کا ایک اور اہم رکن تکفیریت اور تکفیری گروہ ہیں، جن کا واضح ترین مصداق "داعش" کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔
حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ نے کہا کہ آج تکفیری دہشت گرد گروہ داعش ایک حکومت میں تبدیل ہوچکا ہے اور شام اور عراق کی سرزمین کے وسیع حصے پر قابض ہے، جس کا رقبہ خطے میں پائے جانے والے بعض ممالک سے بهی زیادہ ہے۔ اسی طرح اس گروہ کا قبضہ تیل اور گیس کے وسیع ذخائر پر بهی ہوچکا ہے اور خطے کے بڑے دریا کو بهی اپنے کنٹرول میں لے چکا ہے۔ یہ گروہ پوری طرح مسلح ہوچکا ہے اور بین الاقوامی برادری کی نظروں کے سامنے کهلم کهلا خام تیل بیچنے میں مصروف ہے۔ انہوں نے یہ سوال پیش کیا کہ تکفیری دہشت گرد گروہ داعش خام تیل کن ممالک کو بیچ رہا ہے؟ انہوں نے کہا کہ داعش کے پاس موجود افرادی قوت دنیا کے مختلف حصوں سے آئی ہے۔ یہ گروہ حتی اپنے اتحادیوں کے ساته بهی انتہائی ناروا سلوک روا رکهے ہوئے ہے اور مجرمانہ اقدامات انجام دے رہا ہے۔ تکفیری دہشت گرد میڈیا کے سامنے بیگناہ انسانوں کو قتل کرتے ہیں اور ان کے گلے کاٹتے ہیں۔ یہ وحشیانہ اقدامات ان کی جانب سے شروع کی گئی نفسیاتی جنگ کا حصہ ہیں۔ اس تکفیری دہشت گرد گروہ کی زد سے اہلسنت مسلمان بهی محفوظ نہیں اور وہ سنی مسلمانوں کو بهی کافر قرار دیتے ہیں۔
سیکرٹری جنرل حزب اللہ لبنان نے کہا کہ خطے میں جاری جنگ ایک مذہبی جنگ نہیں بلکہ داعش اور تکفیریت کا نشانہ وہ سب ہیں جو ان کی مخالفت کرتے ہیں۔ یہ دہشت گرد گروہ خطے کی تاریخ کو نابود کرنے کے درپے ہے، لہذا سب کیلئے برابر کا خطرہ ہے۔ ہم سب کو چاہیئے کہ درپیش خطرات کی شدت کو بهانپتے ہوئے مل کر اس کا مقابلہ کرنے کیلئے چارہ جوئی کریں۔
سید حسن نصراللہ نے کہا کہ خطے میں اتحاد کی تحریک کا آغاز ہوجانا چاہیئے اور خطے کے تمام باشندوں کو چاہئے کہ وہ آپس میں متحد ہو جائیں۔ خطے کو درپیش خطرات سے مقابلہ کرنے کا یہی واحد طریقہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ تکفیری دہشت گروہ داعش قابل شکست ہے لیکن اس کو شکست دینے کا راز اتحاد اور وحدت میں مضمر ہے۔