نوید شاہد کی رپورٹ کے مطابق: حضرت امام کی سادہ زندگی اور عظمت کردار خاص طور سے ان لوگوں کو زیادہ تعجب میں ڈال دیتی تهی جنہوں نے دنیا کے ظالم و جابر حکمرانوں کو ان کے افسانوی محلوں میں نزدیک سے دیکها ہے۔ ایک دن کچه بیرونی نامہ نگار جماران آئے ہوئے تهے۔ ان میں سے ایک ظاہراً امریکی جوان تها جو امام کا گهر دیکهنے کے بعد انتہائی حیرت زدہ تها۔ سب کچه اپنی نگاہوں سے دیکهنے کے باوجود یہ اس کے ذہن سے نہیں اتر رہا تها۔ اس وجہ سے وہ کسی غیرمعمولی چیز کی تلاش میں تها ساته ہی وہ کسی ایسے شخص کو ڈهونڈه رہا تها جو اس معما کو حل کرسکے۔ آخرکار مجه سے ملنے کے بعد اس نے انتہائی ذوق و شوق کے ساته گفتگو شروع کی۔ اگرچہ میں اس کی زبان نہیں سمجه رہا تها لیکن اس کی زبان حال اس کے مافی الضمیر کی بخوبی عکاسی کررہی تهی۔ کچه ہی دیر میں ایک مترجم مل گیا جس نے اس کی گفتگو کا ترجمہ کیا۔
امام کے گهر کے مختصر سے آنگن میں لوہے کے سریے لگے ہوئے تهے تاکہ جاڑے میں ٹهنڈی ہوا اور گرمی میں سخت دهوپ سے بچنے کے لئے ان پر ترپال ڈالی جاسکے۔ اس کا سوال یہ تها کہ:
یہ سرئیے اور راڈ کس لئے ہیں؟ کیا ان میں کرنٹ ہے؟
اس کے بعد اس نے پوچها: کیا واقعاً امام کا گهر یہی ہے؟
میں نے کہا: آپ جو یہ گهر دیکه رہے ہیں یہ بهی امام کی ملکیت نہیں ہے بلکہ کرایہ کا مکان ہے!
اسے بہت تعجب ہوا، اس کی آنکهیں آنسوؤں سے ڈبڈبانے لگیں اور وہ منقلب ہوگیا۔ جیسے اس کے سامنے ایک نیا افق کهول دیا گیا ہو لیکن اس کی آنکهیں اس سمت دیکهنے پر قادر نہیں ہیں۔
یقینا امام(رح) کی ہر خصوصیت جو اسلام، امامت اور اسلامی حکومت میں قائد کی صفات کا مظہر ہے، کا دوسرے نظام اور ان کے قائدین سے موازنہ ہر باشعور اور آزاد ضمیر انسان کو اسلام کی حقانیت اور اسلام کے حیات بخش نظام کی جانب رہنمائی کرسکتا ہے۔