قوانین اسلام کی وسعت اور اس کے دائمی ہونے کی نشانیاں پر دین کے اندر دیکهنے کے علاوہ دین کے باہر سے بهی نگاہ ڈالنے سے عقل و خرد کی مدد سے بخوبی معلوم ہو سکتی ہیں کہ قانون اسلام، سرحدوں اور زمان و مکان کی محدودیتوں سے بالاتر ہے اور پوری بشریت کے لئے قانون شمار ہوتا ہے اور سبوں کو اس کے سامنے تسلیم ہونا چاہئے۔ اس موضوع کے عقلی استدلال کے بارے میں اسلامی دانشوروں کے نظریات یکساں نہیں ہیں. اس سلسلہ میں امام خمینی(رہ) کا استدلال بدیہات اور مسلم عقلی اصول کی تاکید پر مبنی ہے اور یہ استدلال عام مخاطبین کے لئے بهی قابل فہم ہے۔ وہ فرماتے ہیں:
” یہ ثابت ہونے کے بعد کہ عقل کے واضح حکم کے مطابق انسان کے لئے قانون کی ضرورت ہے اور دنیا، نیز دنیا میں رہنے والے قواعد و ضوابط اور قانون کے محتاج ہیں اور دنیا کے ممالک کو قانون کے بغیر ادارہ نہیں کیا جا سکتا ہے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ خالق کائنات انسان کے لئے قانون بنانے کا حق رکهتا ہے یا نہیں؟
اگر کہا جائے کہ اسے اس کا حق نہیں ہے تو یہ خلاف عقل بات ہونے کے علاوہ خداوند متعال کو بے اہمیت سمجهنا ہے، اس صورت میں ہم سوال کر سکتے ہیں کہ: پس خداوند متعال نے کیوں قرآن مجید اور دوسری آسمانی کتابوں میں انسان کے لئے قانون بهیجا اور اپنی ذمہ داری کے بر خلاف عمل کیا؟
تو بیشک خدا کو قانون بنانے کا حق ہے، اس صورت میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ خدا بہتر قانون بنا سکتا ہے یا بشر؟
بیشک وہی بہتر قانون بنا سکتا ہے۔ اس صورت میں اسلام کا پیش کیا گیا قانون اس زمانہ میں تمام لوگوں کے لئے قابل عمل ہے یا نہیں؟
اگر قابل عمل نہیں ہے تو خداوند متعال نے کیوں ماضی میں انسان کی ذمہ داریوں کو معین کیا ہے اور موجودہ زمانے میں انهیں آزاد چهوڑا ہے؟
گزشتہ زمانہ کے لوگوں کے ساته کیوں دوستی رکهتا تها اور ہمارے ساته کیوں دشمنی رکهتا ہے؟ ان کے لئے عظیم قوانین پر مشتمل قرآن مجید بهیجا اور زندگی کے تمام مراحل میں ان کی ذمہ داریوں کو معین کر دیا لیکن ہمیں اپنے حال پر چهوڑ دیا تاکہ جو چاہیں کریں اور جس راہ پرچاہیں چلیں؟
یہ سب عقل و خرد کے قانون کے خلاف ہے، لہٰذا اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے کہ یہ قانون، جس کے بعد ضرورت کے حکم کے مطابق کوئی قانون نہیں آیا ہے، آج بهی پوری بشریت کے لئے قانون ہے اور اس پر عمل ہونا چاہئے۔
صحیفہ نور سے اقتباس