اسی دنوں میں ہم شاہد وناظر ہیں کہ غاصب صیہونی رژیم نے کس طرح بے گناہ اور نہتے فلسطینی عوام پر غزہ میں ظلم وجور اور سفاکانہ سلوک کر رکہا ہے جو کسی بهی انسانی معیار سے سازگار نهیں اور نہ کوئی صاحب ضمیر اس کی تائید وتوثیق کرتا ہے۔
لیکن جب معیاروں میں تبدیلی اور مسخ شدہ دنیا میں بنیادی انسانی اقدار، سامراج اور ان کے پیروکاروں بلکہ بین الاقوامی کنونشنز کے نام نہاد ادارے نیز اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے قاموس میں ترجمہ وتعریف نہیں کیا جاتا مگر یہ کہ استکبار کی خواہش واہداف کے مطابق بیان کیا جائے تو یقینا یہ مظالم اور سفاکیت جاری وساری رہے گا۔
بدقسمتی سے، بعض مسلم حکمرانوں کی خاموش منظوری کی وجہ سے بهی یہ تمام جرائم صیہونی ہاتهوں کیا کر رہے ہیں.
اور شاید بعض کے اذہان میں یہ غلط سوچ بیٹهے کہ یہ جرائم کرنے والے خدا کے نبی، حضرت موسی(ع) کے پیروکار، یہودی ہیں! اس لیے مکتب امام خمینی(رح) سے 35 سال قبل کے بیانات پڑهتے ہیں جو ان دو کے درمیان تفکیک کے قائل ہوئے ہیں:
ہم یہودی معاشرے کے مسئلے کو صیہونیزم اور صیہونیوں کے مسئلے سے الگ سمجہتے ہیں، وہ تو بالکل اہل مذہب ہی نہیں ہیں۔ حضرت موسی – سلام اللہ علیہ – کی تعلیمات کہ جو الهی تعلیمات تهیں اور قرآن مجید میں تمام انبیاء سے زیادہ حضرت موسی(ع) کا ذکر ہوا ہے اور حضرت موسی(ع) کی تاریخ قرآن مجید میں مذکور ہے، یہ گرانقدر تعلیمات ہیں اور وہ ترتیب جس کو حضرت موسی(ع) نے فرعون کے سامنے پیش کیا ہے گرانقدر ہے۔ بظاہر ایک چرواہا ہوتے ہوئے نہایت قوی ارادے اور پوری قوت کے ساته، فرعون جیسی عظیم طاقت کے خلاف قیام کیا اور اس کو نابود کردیا۔
قدرت الہی اور مستکبروں کے مقابلے میں جن میں سب سے پہلا مستکبر فرعون تها کمزوروں کے مفادات کی خاطر، مستکبرین کے خلاف قیام، حضرت موسی(ع) کا طریق کار تها اور یہ بالکل اس چیز کے برخلاف ہے کہ جس کا پروگرام اس صیہونیزم گروہ نے بنا رکها ہے۔ ان کا رابطہ مستکبرین سے ہے۔ یہ ان کے جاسوس ہیں، ان کے نوکر ہیں اور مستضعفین کے برخلاف کام کرتے ہیں۔ حضرت موسی(ع) کی تعلیمات کے بالکل برعکس کہ جنهوں نے دوسرے انبیاء(ع) کی طرح، حضرت موسی(ع) نے انہی گلی کوچوں اور بازار کے معمولی افراد میں سے چند افراد کو ساته ملایا اور فرعونی طاقت کا بهرم توڑنے کیلئے اس کے خلاف قیام کیا، مستضعفین کی طرف سے مستکبرین پر حملہ ہوا تاکہ انہیں ان کے تکبر سے نیچے اتارا جائے۔ برخلاف ان صیہونیوں کے طریقے کے کہ یہ تو مستکبرین سے مربوط ہیں اور مستضعفین کے خلاف کام کرتے ہیں۔ یہودیوں کی وہ تعداد جنہوں نے دهوکہ کهایا ہے اور دنیا کےمختلف ممالک سے وہاں اکٹهے ہوئے ہیں جو یہودی ہیں اور حضرت موسی(ع) کی تعلیمات عالیہ کے علاوہ کسی اور کی پیروی نہیں کرنا چاہتے، شاید اب وہ پشیمان ہوں گے کہ وہاں آگئے ہیں۔ اس لیے کہ وہاں جانے کے بعد جو شخص بهی ان کے کرتوت دیکهتا ہے کہ وہ لوگ کس طرح بے گناہ لوگوں کو قتل کرتے ہیں اور کس قدر امریکہ اور دیگر طبقوں سے وابستہ ہیں؟ تو وہ اب بات کو تحمل نہیں کرسکتا کہ یہ لوگ یہودی ہوتے ہوئے حضرت موسی(ع) کی تعلیمات کے برخلاف عمل کریں۔ ہمیں معلوم ہے کہ یہودیوں کا حساب وکتاب، صیہونیوں سے علیحدہ ہے۔ ہم صیہونیوں کے مخالف ہیں اور ہماری مخالفت کی وجہ یہ ہے کہ وہ سب مذاہب کے مخالف ہیں، وہ یہودی نہیں ہیں وہ تو سیاسی قسم کے لوگ ہیں جو یہودیوں کے نام سے کام کررہے ہیں۔ خود یہودی بهی ان سے متنفر ہیں اور ہر انسان کو ان سے متنفر ہونا چاہئے۔
صحیفه امام، ج7، ص،289۔
منبع: جماران