نجف میں ہمارے ابتدائی ایام تهے کہ ایک دن عصر کے وقت خالہ اور والدہ محترمہ کے ساته نبی خدا حضرت یونس(ع) کی تربت کی زیارت کے لیے گئے جو کہ کوفہ کے نزدیک دریائے فرات کے کنارےکهجور کے درختوں میں گهری ایک خوبصورت منظر پیش کر رہی تهی۔
یہاں ہماری ملاقات عربی چادر اوڑهے ایک ایرانی خاتون سے ہوئی، خالہ اور والدہ صاحبہ نے انہیں پہچانتے ہوئے سلام کیا۔ والدہ نے آہستہ سے مجهے بتایا کہ یہ خاتون آیت اللہ خمینی کی اہلیہ محترمہ ہیں۔سلام دعا کے بعد انہوں نے پوچها کہ ہمارا پروگرام کیا ہے؟ ہم نے کہا کہ نبی خدا کی زیارتگاہ پہ نماز پڑهنے کا قصد ہے۔ انہوں نے کہا کہ نماز تو وہ پڑه چکی ہیں مگر ہمارے ساته چلتی ہیں۔ جب ہم زیارتگاہ میں داخل ہوئے تو میں نے نماز پڑهنے کا ارادہ کیا انہوں نے اپنا مصلی بچها کہ کہا: یہاں پڑهیں! میں نےشکریہ ادا کیا اور اس مصلی پہ نماز پڑهی۔
نماز کے بعد بات چیت شروع ہوئی تو میں نے کہا کہ قم میں فریدہ خانم کے پاس پهولوں کے فن کی کلاس میں جایا کرتی تهی۔ انہوں نے جواب میں کہا کہ ہاں! فریدہ نے انہیں خط میں لکها تها۔ میں پہلے ہی اپنی دوست ملیحہ سے سن چکی تهی کہ فریدہ خانم نے اپنے ماں باپ کو خط میں لکها ہے کہ اگر سید احمد (فرزند امام خمینی) کے لیے شریک حیات کے انتخاب کا ارادہ ہے تو آیت اللہ سلطانی کی صاحبزادی بہترین ہے اور یہ بهی سن چکی تهی کہ انہوں نے فریدہ خانم کی رائے قبول کر لی ہے۔ پس متجسس تهی کہ جان جاؤں کہ یہ باتیں کس حد تک درست ہیں۔
اقلیم خاطرات / خانم فاطمہ طباطبائی