تہران میں واقع دار الزہراء میں حجۃ الاسلام ڈاکٹر مقدم کی شہادت حضرت علی علیہ السلام کے موقع پر عدالت علوی کے موضوع پر تقریر :
ماہ مبارک کی تیئیسویں شب ایک تو شب قدر ہونے کے لحاظ سے دوسرے شب شہادت امیرالمومنین علیہ السلام کے سبب بہت زیادہ اہمیت رکهتی ہے۔حضرت علی علیہ السلام کی ذات والا صفات مختلف پہلوئوں سے قابل ذکر ہے ۔تاریخ میں موثر کردار ادا کرنے والے بے شمار عملاء،دانشمندان اور صاحبان قلم نے مولیٰ کو خراج عقیدت پیش کیا ہے۔امام علی علیہ السلام کی ذات گرامی ہر لحاظ سے مشعل راہ کی حیثیت رکهتی ہے۔
مولیٰ علی علیہ السلام کی حکومت کے دور میں درپیش مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر مقدم نے اضافہ کیا:حضرت علی علیہ السلام نے اپنی خلافت ظاہری کے دوران پیش آنے والی مشکلات کا شکوہ کیا ہے ۔آپ کی خلافت کے دوران متعدد جنگیں ہوئیں۔زندگی کے مختلف مراحل میں امام علی علیہ السلام ہمارے لئے نمونہ عمل ہیں۔آپ کی انفرادی اور سیاسی زندگی سے سبق لیتے ہوئے ہم خود کو امام سے قریب یا دور کر سکتے ہیں۔
عدالت علوی کا ذکر کرتے ہوئے موصوف نے کہا:امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام نے کسی بهی حکومت کی آفتوں کا ذکر کرتے وقت سب سے پہلے معاشرہ میں موجود بے عدالتی اور نابرابری کو بیان کیا ہے۔
قرآن کریم کی رو سے تمام انبیاء علیہم السلام کی اجتماعی زندگی کا ہدف معاشرہ میں عدل وعدالت کی ترویج ہے۔
اپنی تقریر کے دوران حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر مقدم نے کہا:امیر المومنین کے کلام پر مشتمل گرانبہا کتاب میں ہم مختلف مقامات پر دیکهتے ہیں کہ انسان مختلف حقوق رکهتا ہے ۔ان تمام حقوق کی رعایت عین عدالت ہے۔
اگر کسی سماج میں انسانی حقوق پائمال ہو رہے ہوں اور کسی بهی صورت انسانی حقوق ادا نہ ہو رہے ہوں تو ایسے سماج میں عدالت کبهی پُر بار و پُر ثمر نہیں ہو سکتی۔
موصوف نے حکومت علوی کی دیگر مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے کہا:امیرالمومنین کسی بهی حکومت بالخصوص دینی حکومت کی ایک بڑی مشکل خشک فکری اور تحجر جانتے ہیں۔شاید خوارج سے زیادہ کوئی بهی حضرت علی علیہ السلام کے لئے سختی نہیں کرتا تها۔ایک مقام پر مولا فرماتے ہیں:میں نےدو ایسے کام انجام دئے ہیں جو کسی اور سے ممکن نہ تهے۔ان میں سے ایک خلفاء ثلاثہ کے دور میں سکوت تها۔دوسرے خوارج کے فتنہ کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا۔
ڈاکٹر مقدم نے بات آگے بڑهاتے ہوئے کہا:کسی بهی معاشرہ کی ایک بڑی مصیبت اس کا متحجر ہونا ہے۔دین میں اصل متن سے زیادہ اس کے درک وفہم پر زور دیا گیا ہے۔اگر سماج میں عقل کارفرما نہ ہو تو اس سماج کا خدا ہی مالک ہے۔
جب امیرالمومنین علیہ السلام نے صفین کے معرکہ میں اپنے سپاہیوں سے کہا جائو معاویہ سے قتال کرو اور سر پر قرآن کریم دیکه کر مکر وحیلہ کا شکار نہ ہو ۔قرآن ناطق میں ہوں۔وہ قرآن کریم کے ان ظاہری کلمات سے تمہیں دهوکہ دینا چاہتے ہیں ۔ان لوگوں نے خود امیرالمومنین کے خلاف شمشیر بکف ہونے کا اعلان کر دیا۔کسی بهی مذہب میں اسلام سے زیادہ عقل وشعور پر زور نہیں دیا گیا ہے۔
مولا علی علیہ السلام کی دوسری تلاش وکوشش کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر مقدم نے اضافہ کیا :حضرت علی علیہ السلام نے حق وحقیقت اور صدق وصداقت کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی۔معاویہ نفاق کا دوسرا نام تها۔
نہج البلاغہ میں ہم پڑهتے ہیں:مجهے کہا جاتا ہے کہ سیاست سے بے خبر ہوں اور معاویہ بہت بڑا سیاست داں ہے۔جبکہ معاویہ دهوکہ باز ہے اور علی سچی اور اخلاقیات پر مبنی سیاست کا حامل ہے۔
حضرت علی علیہ السلام نے عدالت،آگہی اور آزادی کی ترویج میں اہم کردار ادا کیا۔آپ نے اپنی سیرت سے یہ پیغام عام کر دیا کہ ہر قوم وملت کا سب سے بڑا دشمن جہالت،ظلم واستبداد اور بے عدالتی ہے۔آج کی رات ایک خشک فکر،مفرط یعنی ابن ملجم مرادی ہاتهوں حضرت علی علیہ السلام نے جام شہادت نوش فرمایا۔یہ جہالت اس حد تک انسان کو اندها بنا دیتی ہے کہ انسان حضرت علی جیسے انسان والا صفات کے قتل سے بهی نہیں رک پاتا۔
ہمارے اطراف اور پڑوسی ممالک میں خود کش حملوں پر مشتمل جو خبریں پہنچتی رہتی ہیں یہ انہیں متحجرین اور متعصبین کا عمل ہے۔جو خشک فکری کا نتیجہ ہے۔
حضرت علی علیہ السلام کا پیغام یہ تها کہ دین شناخت،عدالت اور صداقت کے ساته با معنی ہے۔اسلامی سماج اگر اپنی راہ سے بے راہ روی کا شکار ہو جائے تو خشونت جنم لے گی جس سے تاریخ کے اوراق سیاہ نظر آتے ہیں۔قرون وسطیٰ کی تاریخ میں نہ فقط عیسائیوں اور یہودیوں کی تاریخ بلکہ ہماری تاریخ بهی بهری پڑی ہے۔
منبع:جماران نیوز ایجنسی