امام خمینی(رح) نے قم میں اپنی اقامت کے دوران جو مکانات کرایہ پر لئے یا خریدا ان چند گهروں میں سے ان کا آخری گهر قم کے محلہ یخچال قاضی میں واقع ہے۔ اور یہ شہرت کا حامل ہے اور یہ لوگوں کی زیارت اور آثار قدیمہ کا جز بن گیا ہے۔ یخچال قاضی والا گهر تقریباً ۱۹۵۷ء میں خریدا گیا ہے اور اس سے پہلے قم میں امام کے اختیار میں کوئی ذاتی مکان نہیں تها۔ امام خمینی(رح) قم میں اپنی اقامت کے آخری لمحوں اور ایام میں اسی معمولی گهر میں زندگی گزارتے تهے۔ یخچال قاضی والے گهر کی قیمت ۱۳/ ہزار تومان جوآپ کی میراث میں ملی ہوئی جائداد کو فروخت کرکے خریدی گئی تهی اور پیمائش کے لحاظ سے تقریباً ۳۰۰/ مربع میٹر اس کارقبہ ہے۔ پهر امام خمینی(رح) کی ایران سے ترکی جلاوطنی کے بعد مذکورہ گهر آپ کے اختیار میں تها لیکن نجف اشرف جلاوطنی اور آپ کے خانوادہ کے نجف منتقل ہو جانے کی بنا پر آپ نے یہ گهر اپنے بهائی آیۃ اللہ پسندیدہ کے حوالہ کردیا۔
یخچال قاضی والا گهر تقریباً سو سال پہلے تعمیر کیا گیا تها اور یہ گهر دو منزلہ یعنی سرداب (Besment) اور پہلی منزل پر مشتمل ہے۔ عمارت کےجنوبی حصہ میں عمارت کا آنگن ہے اور اس کے مغربی اور مشرقی شمال میںِ سائبان ہے۔ اور عمارت کے وسط میں سیڑهیاں ہیں جو عمارت کو باہری شرقی اور داخلی مغربی دوحصوں میں تقسیم کرتی ہیں۔ عمارت کے باہری حصہ میں ایک بڑا کمرہ ہے جو برسوں امام کے سامعین اور شاگردوں کی مہمانی کا مرکز رہا ہے۔
یخچال قاضی والا گهر قم کے دیگر گهروں کی نسبت رقبہ کے لحاظ سے مناسب ہے لیکن بہت ہی سادہ اور تمام آرائشوں اور سجاوٹوں سے خالی ہے۔ یہ گهر کچی اینٹ کا بنا ہوا بہت ہی سادہ و معمولی ہے اور یہ ایک ایسے انسان کی سادگی اور معمولی زندگی گزارنے کی علامت ہے جس نے عزت کی زندگی گزاری اور عزت و حریت کے ساته راہی ملک ابد ہوگئے۔
ایک مغربی ایران شناس کا بوشینسکی امام کے گهر کی اس طرح توصیف کرتا ہے ۔ امام خمینی پہلے اپنے اہل و عیال اور پانچ بچوں کے ساته ناہموار اور تنگ روڈ پر واقع ایک چهوٹے مکان میں زندگی گزارتے تهے جس کے درمیان سے پانی کی نہر جاری تهی۔