جماران نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، امام خمینیؒ کی یاد میں منعقدہ "اجلاس کنشگرانِ حوزہ امام خمینیؒ" سے خطاب کرتے ہوئے حجۃ الاسلام والمسلمین سید حسن خمینی نے امیرالمؤمنین علیہ السلام کی ایک مشہور تعبیر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ حضرت علیؑ فرماتے ہیں: ’’جب تم لوگوں کے لیے نماز پڑھاؤ تو نہ انہیں دین سے متنفر کرو اور نہ ہی عبادت کو ضائع کرو، کیونکہ بعض لوگ بیمار ہوتے ہیں یا انہیں کام ہوتا ہے۔‘‘ حضرت علیؑ مزید فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے جب مجھے یمن بھیجا تو میں نے پوچھا کہ نماز کیسے پڑھاؤں؟ آپؐ نے فرمایا کہ کمزور ترین شخص کے مطابق نماز پڑھانا اور مومنین کے ساتھ مہربانی کرنا۔
سید حسن خمینی نے کہا: ہمیں معاشرے سے توقعات میں اعتدال برتنا چاہیے۔ امام خمینیؒ کی موجودگی میں غیبت ممکن نہ تھی، لیکن کیا آج بھی ہم خود کو اس معیار پر رکھتے ہیں؟ افسوس کہ آج غیبت، تہمت اور جھوٹ بولنا گویا دین کا حصہ بن گیا ہے۔ ہم بعض اوقات چیزوں کے درمیان تناسب کو بگاڑ دیتے ہیں، فروعی مسائل کو اصولی بنا دیتے ہیں، اور بعض مستحب اعمال کو واجب کے درجے پر لے آتے ہیں جبکہ اصل دین کا کچھ حصہ ہم بھول جاتے ہیں۔
انہوں نے زور دے کر کہا: امام خمینیؒ کے بارے میں کچھ بھی نہ چھپایا جائے۔ ایسی بات نہ ہو کہ کچھ چیزیں بیان کر دی جائیں اور کچھ کو چھوڑ دیا جائے۔ شارح (تشریح کرنے والا) کی سب سے پہلی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ صاحبِ فکر کی فکر کو درست اور مکمل انداز میں بیان کرے، نہ کہ اپنی بات کو امام کی زبان میں پیش کرے۔ دوسری بات یہ ہے کہ لوگوں کو امامؒ سے دور نہ کیا جائے، اور ایسا رویہ یا تصویر نہ پیش کی جائے جو امامؒ کو منفی انداز میں ظاہر کرے۔ نہ امامؒ کو حد سے زیادہ مزیّن (بزک) کیا جائے اور نہ انہیں ناحق طور پر سخت گیر یا منفی شخصیت کے طور پر پیش کیا جائے۔
سید حسن خمینی نے امام خمینیؒ کے ابتدائی شاگردوں اور قریبی ساتھیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا: ہمیں ہمیشہ مرحوم آیت اللہ ہاشمی رفسنجانی کی یاد آتی ہے۔ مرحوم آیت اللہ مهدوی کنی، مرحوم آیت اللہ یوسف صانعی، جنہوں نے امامؒ کے افکار کی بھرپور تشریح کی، اور آیت اللہ حسن صانعی، جن کی بصیرت اور دقتِ نظر امام کے لیے مفید ثابت ہوئی۔ اسی طرح مرحوم آیت اللہ ریشہری، مرحوم حجۃ الاسلام محتشمیپور اور مرحوم حجۃ الاسلام دعائی بھی امامؒ کے نیک ساتھیوں میں سے تھے، جن کی یاد آج بھی دل کو تڑپاتی ہے۔ مرحوم عسکراولادی بھی مشکل وقتوں میں امامؒ کے باوفا ساتھی تھے۔
انہوں نے دعا کی کہ اللہ ان تمام عظیم شخصیات کو اپنی رحمت میں جگہ دے، اور رہبر معظم انقلاب کی توفیقات میں اضافہ فرمائے، کیونکہ امامؒ کے بعد ان کے دل میں امامؒ کے لیے جو محبت اور اخلاص ہے وہ قابلِ ستائش اور مثالی ہے۔
سید حسن خمینی نے اپنی تقریر کی ابتدا میں نائب صدر ڈاکٹر محمد رضا عارف کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر عارف نے جب سے وہ یونیورسٹی آف تہران کے صدر تھے، امام خمینیؒ سے متعلقہ پروگرامز اور معاملات میں برادرانہ محبت اور خلوص کے ساتھ ہمیشہ ساتھ دیا۔