امام خمینی (رح) کی آخری ایّام کی زندگی اور ان کا طرزِ عمل

امام خمینی (رح) کی آخری ایّام کی زندگی اور ان کا طرزِ عمل

امام خمینیؒ، اسلامی انقلابِ ایران کے بانی اور ایک عظیم فقیہ و رہنما تھے جنہوں نے نہ صرف ایک عظیم سیاسی انقلاب برپا کیا بلکہ اپنے روحانی، اخلاقی اور ذاتی رویے سے بھی پوری دنیا کے مسلمانوں کے لیے ایک نمونہ قائم کیا۔

امام خمینیؒ، اسلامی انقلابِ ایران کے بانی اور ایک عظیم فقیہ و رہنما تھے جنہوں نے نہ صرف ایک عظیم سیاسی انقلاب برپا کیا بلکہ اپنے روحانی، اخلاقی اور ذاتی رویے سے بھی پوری دنیا کے مسلمانوں کے لیے ایک نمونہ قائم کیا۔ ان کی زندگی کے آخری ایام میں بھی وہی سادگی، تقویٰ، خدا پر توکل اور عوامی درد مندی نظر آتی ہے جو ان کی پوری زندگی کا خلاصہ تھی۔

سادگی اور زہد کا مظہر

امام خمینیؒ کی زندگی کے آخری سالوں میں جب وہ اسلامی جمہوریہ ایران کے بانی اور رہبر اعلیٰ تھے، وہ اُس وقت بھی انتہائی سادہ زندگی بسر کرتے تھے۔ اُن کا طرزِ رہائش ایک عام گھر جیسا تھا، جہاں نہ کوئی غیر ضروری آسائش تھی اور نہ کوئی دنیوی نمود و نمائش۔ ان کا کمرہ نہایت سادہ، چھوٹا اور قالین سے ڈھکا ہوا ہوتا۔ وہ اکثر زمین پر بیٹھ کر کھانا کھاتے اور کبھی بھی کسی خصوصی مقام یا پروٹوکول کے خواہشمند نہیں ہوتے۔

عبادت اور ذکرِ خدا

اپنی آخری عمر میں امام خمینیؒ نے عبادت اور ذکرِ خدا میں مزید اضافہ کر دیا تھا۔ تہجد کا ناغہ نہیں کرتے تھے، قرآن کی تلاوت ان کے معمولات کا حصہ تھی۔ بیماری کے باوجود وہ نماز باجماعت اور تہجد کے لیے پابندی سے وقت نکالتے۔ ان کا دل ہمیشہ اللہ کے ذکر سے منور رہتا تھا۔ وہ فرمایا کرتے تھے:

"اگر دنیا کی سب طاقتیں بھی تمہارے خلاف ہوں، لیکن تم اللہ کے ساتھ ہو، تو تم کامیاب ہو۔"

امتِ مسلمہ کا درد

امام خمینیؒ کے دل میں امتِ مسلمہ کے لیے گہرا درد تھا۔ اپنی زندگی کے آخری دنوں میں بھی وہ فلسطین، لبنان، افغانستان اور دیگر مظلوم مسلمانوں کے بارے میں فکر مند رہتے۔ اُنہوں نے ہمیشہ مسلمانوں کو وحدت، تقویٰ، بیداری اور استعمار سے مقابلے کا پیغام دیا۔ وہ تاکید کرتے تھے کہ امتِ مسلمہ کو بیدار ہونا ہوگا اور ظالموں کے خلاف کھڑا ہونا ہوگا۔

سیاسی بصیرت اور قیادت

اگرچہ امام خمینیؒ کا جسمانی طور پر ضعف بڑھ گیا تھا، لیکن ان کی فکری اور سیاسی بصیرت میں کوئی کمی نہیں آئی تھی۔ وہ نہایت حکمت کے ساتھ نظامِ اسلامی کی رہنمائی کرتے رہے۔ انہوں نے مختلف مسائل میں رہنمائی دی، نئے فتوے صادر کیے اور اسلامی حکومت کو اصولی بنیادوں پر استوار رکھنے کے لیے ہدایات دیں۔

مثال کے طور پر انہوں نے "ولایت فقیہ" کے اصول کو وضاحت سے بیان کیا اور فرمایا کہ اسلامی نظام کی بقا و حفاظت کے لیے ایک عادل فقیہ کا رہنما ہونا ضروری ہے۔ اُنہوں نے اپنی آخری وصیت میں بھی اس بات پر زور دیا کہ عوام ہمیشہ بیدار اور نظام اسلامی کے ساتھ وفادار رہیں۔

محبت اور خندہ پیشانی

اپنی آخری عمر میں امام خمینیؒ کا اخلاق اور محبت بھرپور انداز میں سامنے آیا۔ وہ اپنے اہل خانہ، شاگردوں اور انقلاب کے کارکنوں کے ساتھ نہایت مہربانی سے پیش آتے۔ ان کی باتوں میں نرمی، انکساری اور شفقت نمایاں تھی۔ وہ چھوٹے بچوں کو دیکھ کر مسکراتے، مہمانوں کا احترام کرتے اور اپنی تھکن و بیماری کے باوجود لوگوں کو وقت دیتے۔

بیماری اور صبر

1989/ء میں جب ان کی طبیعت خراب ہوئی اور انھیں ہسپتال منتقل کیا گیا، تو انہوں نے صبر اور رضا بالقضا کی ایسی مثال قائم کی جو ایمان کی اعلیٰ ترین سطح کو ظاہر کرتی ہے۔ ان کے چہرے پر شکوہ یا بے قراری کا شائبہ تک نہ تھا۔ ان کا دل ذکرِ الٰہی میں مصروف تھا اور وہ بیماری کو بھی ایک امتحانِ الٰہی سمجھتے تھے۔

ڈاکٹروں اور نرسوں نے بیان کیا کہ امام خمینیؒ ہر علاج پر «الحمدللہ» کہتے تھے اور کسی قسم کی ناراضی یا ناامیدی کا اظہار نہیں کرتے تھے۔ اُنہوں نے اپنی بیماری کے دوران بھی دوسروں کی خیریت دریافت کرنا نہیں چھوڑا۔

وصیت نامہ: ایک روحانی منشور

امام خمینی (رح) نے اپنی وفات سے قبل ایک مفصل وصیت نامہ تحریر فرمایا جو نہ صرف ایرانی قوم بلکہ پوری امتِ مسلمہ کے لیے ایک روحانی و فکری منشور کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس وصیت میں اُنہوں نے اسلامی انقلاب کے اصول، اسلامی معاشرت کی بنیادیں، دشمنوں کی سازشوں، اور عوام کی ذمہ داریوں کا تفصیلی تذکرہ فرمایا۔

انہوں نے خاص طور پر جوانوں کو نصیحت کی کہ وہ علم، عمل، تقویٰ اور جہاد کی راہ پر قائم رہیں اور اسلامی اقدار کو دنیا میں زندہ کریں۔

وفات اور الوداع

3/ جون 1979/ء کو امام خمینی (رح) نے دارِ فانی سے رخصت لی۔ اُن کی رحلت پر نہ صرف ایران بلکہ دنیا بھر میں سوگ کا سماں تھا۔ اُن کے جنازے میں لاکھوں لوگوں نے شرکت کی، اور دنیا نے ایک روحانی پیشوا، ایک انقلابی رہنما، اور ایک عارفِ با خدا کو الوداع کہا۔

ای میل کریں