تحریر: حسین شریعت مداری
1۔ رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے امام حسن علیہ السلام کی صلح کے بارے میں فرمایا ہے۔ امام مجتبیٰ (ع) کی صلح اتنی ہی قیمتی اور اہم تھی، جتنی آپ کے بھائی امام حسین (ع) کی شہادت کی قدر و منزلت ہے۔ جتنی اس شہادت نے اسلام کی خدمت کی، اتنی ہی اس صلح نے اسلام کی خدمت کی۔ امام حسن (ع) نے اس دشمن کے ساتھ فوجی جنگ کو روک دیا، جسے پہلے بے نقاب کیا جانا ضروری تھا، تاکہ پھر اس کے ساتھ سیاسی، ثقافتی اور اسلامی جنگ شروع کی جا سکے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ امام حسن کی وفات کے فوراً بعد اور امام حسین علیہ السلام کی امامت کے دس سال بعد، عالم اسلام اس صورت حال میں آگیا تھا کہ وہاں اب ایک فرزندِ رسول، یعنی امام حسین کی شہادت کو منوایا جاسکے۔ وہ شہادت، جو تاریخِ دنیا کے آخر تک قائم رہے گی اور جس کے اثرات تا ابد قائم رہیں گے۔
2۔ امام حسن علیہ السلام کا دور سب سے مشکل دوروں میں سے ایک دور تھا۔ رہبر انقلاب کا کہنا تھا کہ یہ دور تمام اماموں کے دوروں سے زیادہ مشکل تھا۔ دشمن اپنے منحوس اور اسلام دشمن چہرے کو "حقیقی اسلام" کے نقاب میں ڈھانپے ہوئے بلکہ اسے چھپائے ہوئے تھا۔ امیر شام نے بہت سے لوگوں کو گمراہ کیا اور بہت سے لوگوں کو دنیا کی نعمتوں سے بہکا کر ان سے حقیقی اسلام کے خلاف جنگ کو جاری رکھنے میں مدد لی۔ قران کہتا ہے۔۔ "اے ایمان والو! جب تم اللہ کی راہ میں مارے جاؤ تو تحقیق کر لیا کرو۔ اے ایمان والو! جب تم اللہ کی راہ میں جہاد کرو تو تحقیق کر لیا کرو۔" یہ قرآن اسی صورت حال سے متعلق ہے۔ جب امام حسن علیہ السلام امامت پر تشریف لائے تو امیرالمومنین کے بقول اسلام کے لباس کو الٹا کرکے پہن لیا گیا تھا۔
3۔ ابوالحسن مدینی نے دوسری صدی ہجری کے عظیم مورخین کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ معاویہ نے ایک حدیث ساز سے کہا کہ میں اس حدیث کو جعلی بنانے کے لئے ایک لاکھ دینار دوں گا۔ تم اس آیت کو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث سے جوڑ دو۔ وہ آیت تھی "وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَشْرِی نَفْسَہُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللَّهِ وَاللَّهُ رَؤُوفٌ بِالْعِبَادِ" (بقره/207) "اور کچھ لوگ ایسے بھی ہیں، جو اللہ کی خوشنودی کی خاطر اپنی جان بھی قربان کر دیتے ہیں اور اللہ اپنے بندوں پر بڑا شفقت کرنے والا اور مہربان ہے۔" امیر شام نے اس حدیث ساز سے کہا ایسی حدیث گھڑو، جس سے یہ ثابت ہو کہ یہ آیت ابن ملجم کے بارے میں ہے! اس نے کہا کہ اے بدبخت! یہ آیت علی علیہ السلام کے بارے میں ہے اور میں اس حدیث کے ساتھ اپنی آخرت کو بیچ رہا ہوں۔اگر تم نے حدیث جعل کروانی ہے تو ریٹ بڑھاؤ۔ ابوالحسن مدینی لکھتے ہیں معاویہ نے چار لاکھ دینار اس شرط پر ادا کیے کہ وہ اس حدیث کو بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قول سے نقل کرے کہ یہ آیت حضرت علی علیہ السلام کے بارے نازل ہوئی۔ "وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يُعْجِبُكَ قَوْلُهُ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَيُشْهِدُ اللهَ عَلَى مَا فِي قَلْبِهِ وَهُوَ أَلَدُّ الْخِصَامِ" (سورہ بقره/204)
4۔ کربلا کے شہیدوں کی تعداد، اگرچہ اس وقت کی مسلم آبادی کے مقابلے میں بہت کم تھی، لیکن یہ وہی تعداد تھی، جس نے انسانی تاریخ کی سب سے بڑی اور دیرپا داستان کو تخلیق کیا اور دشمنوں کی طرف سے بنائے گئے انحراف کو روک دیا۔یہ تحریک امام حسن اور امام حسین علیہ السلام کی مشترکہ کوششوں کا نتیجہ ہے۔ یہ وہ قیام ہے، جس نے حضرت امام خمینی رضوان اللہ تعالیٰ علیہا کے قول کے مطابق اسلام کو زندہ رکھا ہے اور اگر امام حسن علیہ السلام اور ان کی عظمت کی روشنی نہ ہوتی تو حضرت حسین علیہ السلام کی عاشورا نہ ہوتی اور حقیقی اسلام واضح ہو کر سامنے نہ آتا۔ اسلامی انقلاب کی تحریک کے دوران ایران میں یہ نعرہ گونجتا تھا: "ای خمینی، خمینی، خمینی۔۔۔۔ ای حسن در قیام حسینی۔" حضرت حسین علیہ السلام کا قیام اور امام حسین علیہ السلام کے جہاد کے ساتھ امام حسن علیہ السلام کی تحریک کا امتزاج، امام خمینی کے قیام میں دوبارہ ظاہر ہوا۔
امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کی ولادت باسعادت مبارک ہو۔