بدمعاشی کے مقابلے میں ایران کی اکیلی آواز

بدمعاشی کے مقابلے میں ایران کی اکیلی آواز

امریکی صدر ٹرمپ نے دعوی کیا ہے کہ اس نے ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کے نام خط لکھا ہے

تحریر: علی رضا ملکیان

 

امریکی صدر ٹرمپ نے دعوی کیا ہے کہ اس نے ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کے نام خط لکھا ہے۔ بالفرض یہ دعوی صحیح بھی ہو تو ٹرمپ کی شخصی خصوصیات اور ذہنی حالات کے پیش نظر اسے زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیا جا سکتا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نرگسیت کا شکار ہے اور اس کے بیانات اور رویے میں تعادل اور استحکام نہیں پایا جاتا۔ پہلی مدت صدارت میں بھی اور موجودہ مدت صدارت میں بھی ڈونلڈ ٹرمپ کی وائٹ ہاوس میں موجودگی حتی امریکہ کے محققین، دانشوران اور عام شہریوں کے لیے قابل قبول نہیں تھی اور نہ ہے۔ تکبر آمیز اور دوسروں کی تحقیر کرنے والا انداز، دوسروں پر برتری حاصل کرنے کا جذبہ، ہمیشہ تعریف کی طلب ہونا، دوسروں پر حکم چلانے اور انہیں استعمال کرنے کی خواہش، خود کو حق بجانب سمجھنا وغیرہ وہ اہم خصوصیات ہیں جو نرگسیت کا شکار شخص میں پائی جاتی ہیں۔

 

یہ تمام خصوصیات عجیب حد تک ڈونلڈ ٹرمپ کی شخصیت میں موجود ہیں۔ ٹرمپ نے ایک بار 2019ء میں بھی اپنی قسمت آزمائی تھی اور جاپان کے وزیراعظم شینزو آبے کے ہاتھ رہبر معظم انقلاب آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کے لیے ایک خط بھیجا تھا۔ شینزو آبے ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کے ایک ہفتے بعد 13 جون 2019ء کے دن ایران آئے اور رہبر معظم انقلاب سے ملاقات کی۔ جاپانی وزیراعظم نے کہا کہ ان کے پاس ٹرمپ کی جانب سے ایک خط ہے تو رہبر معظم انقلاب نے جواب دیا: "ہمیں آپ کی نیک نیتی اور سنجیدگی میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے لیکن جو کچھ آپ امریکی صدر کے بقول کہہ رہے ہیں میں ذاتی طور پر ٹرمپ کو اس قابل نہیں سمجھتا کہ اس سے خط و کتابت کی جائے۔ میرے پاس اس کے خط کا کوئی جواب نہیں ہے اور جواب نہیں دوں گا۔" آبے شینزو نے یہ سن کر چپ چاپ خط اپنے نیچے دبا لیا۔

 

قابل توجہ بات یہ ہے کہ اسی سال 2019ء میں جب ٹرمپ ایران سے مذاکرات اور بات چیت کی خواہش کا اظہار کر رہا تھا امریکی وزیر خارجہ مائیک پمپئو نے نیک نیتی ظاہر کرنے کی بجائے مفروضہ مذاکرات شروع ہونے کے لیے 12 شرطیں پیش کر دیں۔ یہ اقدام سفارتی آداب کے بالکل خلاف تھا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکی حکمرانوں کی نظر میں مذاکرات کا مطلب غیر مشروط طور پر ان کے بدمعاشی پر مبنی موقف کو قبول کر کے ان کی ڈکٹیشن پر عمل پیرا ہونا ہے۔ اب ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بار پھر ماضی کی طرح ایران کو خط لکھنے کا عمل دہرایا ہے۔ وہ ایک طرف جوہری معاہدے کے حصول کے لیے مذاکرات کی بات کرتا ہے جبکہ دوسری طرف زیادہ سے زیادہ اقتصادی دباو کے لیے پابندیوں کا تازیانہ بلند کر رکھا ہے اور ایران کو فوجی حملے کی دھکمیاں دینے میں مصروف ہے۔

 

جرج بش جونیئر کے زمانے سے امریکی حکمران ایران کو یہ کہہ کر دھمکی دیتے آئے ہیں کہ Military option is on the table، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ آج نہ تو امریکہ بیس یا تیس سال پہلے والی پوزیشن میں ہے اور نہ ہی عالمی رائے عامہ اس زمانے کی رائے عامہ ہے۔ دنیا آج پوری طرح جاگ چکی ہے اور وائٹ ہاوس کے حکمرانوں کی پلید اور گھٹیا اصلیت کو پہچان چکی ہے۔ امریکہ اور اسرائیل کی جانب سے غزہ میں مظلوم فلسطینیوں کی نسل کشی اور دیگر انسان سوز جرائم کے بعد اس کا اصل چہرہ دنیا والوں پر مزید عیاں ہو چکا ہے۔ شجاع اور فاتح غزہ نے واضح کر دیا ہے کہ اسرائیل اور اس کے سرپرست امریکہ کی طاقت کس قدر کھوکھلی ہے جو پندرہ ماہ تک بربریت اور قتل عام کے باوجود آخر میں اسلامی مزاحمت سے جنگ بندی معاہدہ کرنے پر مجبور ہو گیا ہے اور غزہ کی لاحاصل جنگ کا واحد نتیجہ 50 ہزار بے گناہ خواتین، بچوں اور عام شہریوں کا قتل عام نکلا ہے۔

 

اب وائٹ ہاوس ایران کو جنگ کی دھمکیاں دے رہا ہے اور اسے خود بھی معلوم ہے کہ ان دھمکیوں کا کوئی نتیجہ نکلنے والا نہیں ہے۔ امریکی حکمران اچھی طرح جانتے ہیں کہ ایران کو جنگ کی دھمکی دے کر مذاکرات کی میز پر بیٹھنے پر مجبور نہیں کر سکتے اور ان کی یہ کوشش بین الاقوامی تعلقات عامہ اور دنیا کے دیگر ممالک کی نظر میں ایک بچگانہ کھیل سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ یوں دکھائی دیتا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اور اس کے مشیروں کا اصل مقصد صرف اور صرف نفسیاتی جنگ کے ذریعے ایران کے اندر عدم استحکام پیدا کرنا ہے تاکہ یوں ایرانی معاشرے کو مذاکرات کی حمایت اور مخالفت کی بنیاد پر دو حصوں میں تقسیم کر سکے۔ اسی طرح امریکی حکام دنیا والوں پر یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ وہ مذاکرات چاہتے ہیں جبکہ ایران مذاکرات سے کترا رہا ہے۔

 

خوش قسمتی سے ایران کے تمام سیاسی حلقے اور گروہ اس امریکی ہتھکنڈے کو اچھی طرح پہچانتے ہیں جس کے نتیجے میں امریکہ سے مذاکرات کے بارے میں ایرانی معاشرے سے واحد موقف سامنے آیا ہے اور ایرانی عوام نے اتحاد کا مظاہرہ کیا ہے۔ ایرانی عوام اپنے ملک کی خودمختاری اور وقار کو پہلی ترجیح سمجھتے ہیں اور اسے کسی بھی چیز پر قربان کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ حتی ایران سے باہر انقلاب مخالف دھڑے بھی اس حقیقت کا اعتراف کر رہے ہیں کہ امریکی حکمرانوں کا رویہ بدمعاشی اور دھونس پر مبنی ہے اور اس کے سامنے گھٹںے ٹیک دینا ایران کے قومی مفادات کے خلاف ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران اپنی ثقافتی، مذہبی اور تہذیبی میراث کی بدولت منطق اور گفتگو کا حامی ہے اور اس نے بارہا دیگر ممالک سے برتاو میں اپنی نیک نیتی ثابت کی ہے۔ ایران ہمیشہ سے دوطرفہ احترام پر مبنی مذاکرات اور معاہدوں کا خیر مقدم کرتا آیا ہے۔

ای میل کریں