بدمعاش حکومتوں کے لیے مذاکرات نئے مطالبات پیش کرنے کا راستہ ہے جو قطعی طور پر پورے نہیں ہوں گے

بدمعاش حکومتوں کے لیے مذاکرات نئے مطالبات پیش کرنے کا راستہ ہے جو قطعی طور پر پورے نہیں ہوں گے

رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ خامنہ ای نے سنیچر 8 مارچ 2025 کی شام انتظامیہ، مقننہ اور عدلیہ کے سربراہوں اور ملک و نظام کے بعض اعلیٰ عہدیداروں سے ملاقات کی

رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ خامنہ ای نے سنیچر 8 مارچ 2025 کی شام انتظامیہ، مقننہ اور عدلیہ کے سربراہوں اور ملک و نظام کے بعض اعلیٰ عہدیداروں سے ملاقات کی۔

 

اس موقع پر اپنے خطاب میں انھوں نے رمضان کے مبارک مہینے کو اللہ کے ذکر کا مہینہ اور قرآن کو ذکر کی کتاب بتایا اور کہا کہ ذکر، غفلت اور فراموشی کے مقابلے میں ہے اور ‌غفلتوں کے درمیان اپنے آپ کو اور خدا کو فراموش کرنا بہت زیادہ نقصان دہ اور ناقابل تلافی ہے۔

 

انھوں نے خدا کو فراموش کرنے کے برے نتائج کے بارے میں قرآن مجید کی آیتوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر انسان خدا کو بھول جائے تو خدا بھی اسے بھول جاتا ہے یعنی اسے اپنی رحمت و ہدایت کے دائرے سے باہر کر دیتا ہے اور اس کی طرف توجہ نہ دے کر اسے اس کے حال پر چھوڑ دیتا ہے۔

 

رہبر انقلاب اسلامی نے خود کو فراموش کر دینے کے سنگین سماجی نقصانات کی تشریح کرتے ہوئے سورۂ توبہ کی ایک آیت کا حوالہ دیا اور کہا کہ اگر اسلامی جمہوری نظام میں ہم پہلے والوں کی طرح یعنی طاغوتی حکومت کے عہدیداروں کی طرح کام کریں تو ہم نے بہت بڑا اور تشویش ناک جرم کیا ہے جس کا خسارہ بہت بڑا ہے۔

 

انھوں نے صدر مملکت کی اچھی اور مفید تقریر کا شکریہ ادا کرتے ہوئے ان کے جذبے اور ذمہ داری کے احساس کو بہت گرانقدر بتایا اور کہا کہ پروردگار عالم پر اعتماد اور بڑے کام کرنے کی صلاحیت پر جناب پزشکیان کی تاکید پوری طرح سے راستہ کھولنے والی ہے۔

 

آیت اللہ خامنہ ای نے وزارت خارجہ کے بھرپور طریقے سے فعال ہونے پر مسرت کا اظہار کرتے ہوئے ہمسایہ اور دیگر ملکوں کے ساتھ تعاون میں اضافے پر زور دیا اور کہا کہ بعض بدمعاش حکومتیں اور غیر ملکی شخصیات مذاکرات پر اصرار کر رہی ہیں جبکہ مذاکرات سے ان کا مقصد، مسائل حل کرنا نہیں ہے بلکہ وہ اپنے مدنظر مطلبات کو مسلط کرنا چاہتی ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اگر فریق مقابل نے ان کی بات مان لی تو بہتر ہے ورنہ وہ ہنگامہ کھڑا کر دیں گی اور اس پر مذاکرات سے ہٹ جانے کا الزام عائد کریں گی۔

 

انھوں نے کہا کہ ان کا مسئلہ، صرف ایٹمی مسئلہ نہیں ہے بلکہ نئے مطالبات پیش کرنے کے لیے مذاکرات ان کے لیے ایک راستہ ہے منجملہ دفاعی وسائل اور بین الاقوامی صلاحیت اور یہ کہ فلاں کام نہ کرو، فلاں شخص سے نہ ملو، میزائيل کی رینج فلاں مقدار سے زیادہ نہ کرو لیکن قطعی طور پر ایران کی جانب سے یہ باتیں تسلیم نہیں کی جائيں گي۔

 

رہبر انقلاب نے فریق مقابل کی جانب سے مذاکرات کی رٹ لگائے جانے کا مقصد، رائے عامہ میں دباؤ پیدا کرنا بتایا اور کہا کہ وہ رائے عامہ میں یہ غلط فہمی پیدا کرنا چاہتے ہیں کہ جب فریق مقابل مذاکرات کے لیے تیار ہے تو ہم کیوں مذاکرات نہیں کر رہے ہیں جبکہ ان کا مقصد مذاکرات نہیں بلکہ اپنی بات مسلط کرنا ہے۔

 

انھوں نے تین یورپی ملکوں کے اس الزام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ ایران نے ایٹمی معاہدے کے تحت اپنے وعدوں پر عمل نہیں کیا ہے، کہا کہ ان سے یہ پوچھا جانا چاہیے کہ کیا انھوں نے ایٹمی معاہدے کے تحت اپنے وعدوں پر عمل کیا؟ انھوں نے پہلے دن سے ہی اپنے وعدوں پر عمل نہیں کیا اور ایٹمی معاہدے سے امریکا کے نکل جانے کے بعد انھوں نے اس کی تلافی کرنے کے جو وعدے کیے تھے، ان سے بھی مکر گئے۔

 

آيت اللہ خامنہ ای نے یورپ والوں کی وعدہ خلافی اور ایران پر وعدے توڑنے کے الزام کو حد سے زیادہ ڈھٹائي بتایا اور کہا کہ اس وقت کی ایران کی حکومت نے ایک سال تک اس صورتحال کو برداشت کیا جس کے بعد پارلیمنٹ میدان میں آ گئي اور اس نے ایک بل پاس کیا اور اس کے علاوہ کوئي راستہ بھی نہیں تھا اور اس وقت بھی منہ زوری والی باتوں کے مقابلے میں اس کے علاوہ کوئي دوسرا راستہ نہیں ہے۔

 

انھوں نے اپنے خطاب کے ایک دوسرے حصے میں اسلامی جمہوری نظام کے ڈھانچے کو قرآنی اصولوں اور اہداف اور  کتاب و سنت کے معیاروں اور اہداف پر مبنی بتایا اور کہا کہ اس بنیاد پر ہم مغربی تمدن کے پیچھے پیچھے نہیں چل سکتے، البتہ مغربی تمدن سمیت دنیا میں جہاں کہیں بھی کوئي مفید چیز ہو، ہم اس سے استفادہ کریں گے لیکن ہم مغرب کے معیارات پر بھروسہ نہیں کر سکتے کیونکہ وہ غلط اور اسلامی اقدار کے خلاف ہیں۔

 

رہبر انقلاب اسلامی نے مغرب والوں کی جانب سے اقوام کے ذخائر کی لوٹ مار، انھیں اپنی نوآبادی بنانے، بے تحاشا قتل عام، انسانی حقوق اور خواتین کے حقوق کے جھوٹے دعووں اور مختلف مسائل میں دوہرے معیارات کے سبب مغربی تمدن کی رسوائي کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ مغرب میں اطلاعات کی آزادی (فریڈم آف انفارمیشن) ایک جھوٹ سے زیادہ کچھ نہیں ہے، جس طرح سے کہ مغرب سے تعلق رکھنے والے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر شہید قاسم سلیمانی، سید حسن نصر اللہ، شہید ہنیہ اور بعض دیگر مشہور شخصیات کا نام لینے کی اجازت نہیں ہے اور فلسطین اور لبنان میں صیہونیوں کے جرائم پر اعتراض نہیں کیا جا سکتا۔

 

انھوں نے ایران کے دشمنوں کے تمام تر منفی پروپیگنڈوں کے باوجود ایرانی قوم کی زیادہ سے زیادہ سربلندی کو ایک حقیقت بتایا اور کہا کہ اگر حکومتی عہدیداران صحیح طریقے سے آگے بڑھیں اور اپنا تشخص قائم رکھیں تو یہ چیز ہمیشہ محفوظ رہے گي۔

 

رہبر انقلاب اسلامی کے خطاب سے قبل صدر مملکت ڈاکٹر مسعود پزشکیان نے اپنی تقریر میں معیشت، ملکی سیاست اور خارجہ پالیسی کے میدانوں میں حکومت کی تازہ کارکردگي کے بارے میں ایک رپورٹ پیش کی۔

ای میل کریں