صیہونی مخالف محاذ مضبوط بنانے میں شہید قاسم سلیمانی کا کردار

صیہونی مخالف محاذ مضبوط بنانے میں شہید قاسم سلیمانی کا کردار

فلسطین میں بھی شہید قاسم سلیمانی نے ایک مشترکہ ہیڈکوارٹر تشکیل دیا اور ایسے دسیوں مزاحمتی گروہوں کو ایک جگہ جمع کر دیا

تحریر: سید جعفر رضوی
 
جب انتہاپسند صیہونی آبادکار، مقبوضہ بیت المقدس کے محلے شیخ جراح میں مسلمان فلسطینی شہریوں کو اذیت پہنچانے میں مصروف تھے اور ان کا ایک اور گروہ مسجد اقصی کی بے حرمتی کرنے کے بعد "پرچم ریلی" نامی جعلی تقریب منعقد کرتے ہوئے مسلمان فلسطینیوں کے محلوں پر حملہ ور ہو رہا تھا تو اس دوران غزہ میں حماس کے ملٹری شعبے شہید عزالدین قسام بریگیڈز کے سربراہ محمد الضیف نے صیہونی حکمرانوں کو دھمکی آمیز پیغام بھیجا اور یہ فلسطین میں اسلامی مزاحمت کی جانب سے غاصب صیہونی رژیم کے خلاف پہلا جارحانہ اقدام ثابت ہوا۔ اکثر ماہرین سمجھتے ہیں کہ اس پیغام میں پہلی بار "محاذوں کے اتحاد" یا "میدانوں میں وحدت" کی تعبیر بروئے کار لائی گئی تھی۔ اس کے ایک سال بعد، 2022ء میں جب غاصب صیہونی رژیم نے غزہ میں اسلامک جہاد فلسطین کے مراکز کو نشانہ بنایا تو اس تنظیم نے بھی اسے "میدانوں میں وحدت" کی جنگ قرار دیا۔ یہ تعبیر درحقیقت شہید قاسم سلیمانی کی میراث تھی اور ان کی شہادت کے بعد زبان زد عام ہو گئی۔
 
اندرونی اتحاد سے میدانوں میں اتحاد تک
شہید قاسم سلیمانی نے ہر میدان میں اتحاد کی حکمت عملی اختیار کی۔ وہ جس میدان میں بھی داخل ہوتے تھے سب سے پہلے وہاں اندرونی وحدت ایجاد کرتے تھے اور تمام طاقتوں کو ہم آہنگ کرتے تھے۔ لبنان میں بھی شہید قاسم سلیمانی نے حزب اللہ کو ملک کے دیگر گروہوں اور جماعتوں سے اتحاد کی ترغیب دلائی جس کے نتیجے میں حزب اللہ ملک کی ایک محبوب جماعت بن کر ابھری۔ اس سے پہلے لبنان میں یورپی ممالک بہت سرگرم تھے اور اپنی حمایت یافتہ جماعتوں اور گروہوں کی ترویج کرنے میں مصروف تھے۔ دوسری طرف اہلسنت جماعتوں نے بھی اہلسنت عوام کو طاقتور بنانے کی کوشش کی۔ لیکن شہید قاسم سلیمانی کی حکمت عملی کے نتیجے میں اسلامی مزاحمت نے ان تمام گروہوں کو ایک پلیٹ فارم پر متحد کیا اور لبنان کی تمام سیاسی قوتیں اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم کے خلاف متحد ہو گئیں۔
 
فلسطین میں بھی شہید قاسم سلیمانی نے ایک مشترکہ ہیڈکوارٹر تشکیل دیا اور ایسے دسیوں مزاحمتی گروہوں کو ایک جگہ جمع کر دیا جو اس سے پہلے انفرادی طور پر اسرائیل کے خلاف نبرد آزما تھے۔ اس اتحاد کا پہلا نتیجہ 2014ء میں 51 روزہ جنگ میں ظاہر ہوا جب غاصب صیہونی رژیم نے پوری طاقت سے اسلامی مزاحمت پر غلبہ پانے کی کوشش کی لیکن آخر میں اسے اپنی شکست تسلیم کرنا پڑی۔ شہید قاسم سلیمانی نے یہی حکمت عملی شام میں بھی اختیار کی اور وہاں شام کی مسلح افواج، جو انتشار کا شکار ہو چکی تھیں، کو آپس میں متحد کیا۔ اس کے بعد انہوں نے شام میں عوامی رضاکار فورس تشکیل دی جسے "دفاع الوطنی" کا نام دیا گیا جس کا مقصد وطن کے دفاع میں شام آرمی کی مدد کرنا تھا۔ شہید قاسم سلیمانی نے عراق میں بھی مختلف قبیلوں اور اقلیتوں کے درمیان اتحاد ایجاد کیا اور انہیں تکفیری دہشت گروہ داعش کے خلاف متحد کیا۔
 
متحد گروہوں میں رابطہ قائم کرنا
شہید قاسم سلیمانی نے افغانستان، عراق، شام، لبنان اور فلسطین میں اسلامی مزاحمتی گروہوں کے درمیان اندرونی اتحاد قائم کرنے کے بعد انہیں ایکدوسرے سے مربوط کرنے پر کام کیا اور ان کے درمیان مضبوط تعلق برقرار کر دیا جس کے نتیجے میں وہ ایک متحدہ تنظیم کی صورت اختیار کر گئے۔ ان مختلف گروہوں کے درمیان مضبوط تعلق قائم کرنے کا سنہری موقع وہ وقت تھا جب شام اور عراق کے وسیع علاقوں پر تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کا قبضہ ہو چکا تھا۔ اس دوران مغربی طاقتوں نے عرب دنیا میں اسلامی بیداری کی لہر کا غلط فائدہ اٹھاتے ہوئے شام اور عراق میں اپنے کٹھ پتلی عناصر مسلط کرنے کوشش کی لیکن شہید قاسم سلیمانی کی گہری بصیرت اور عظیم حکمت عملی کے نتیجے میں دشمن کی یہ سازش ناکام ہو گئی اور تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کو نیست و نابود کر دیا گیا۔
 
میدانوں میں اتحاد، اسلامی مزاحمت کی ذاتی خصوصیت
شہید قاسم سلیمانی کی شہادت کے بعد زبان زد عام ہونے والی تعبیر "میدانوں میں اتحاد" کا مطلب یہ ہے کہ اسلامی مزاحمتی بلاک میں شامل ہر رکن قوت دوسری رکن قوتوں کے بارے میں بھی سوچے اور اس کے مسائل کو اپنے مسائل تصور کرے۔ لہذا جب ان میں سے کوئی ایک خطرے سے روبرو ہو تو دیگر رکن قوتیں بھی جسد واحد کی طرح اس پر خاموش تماشائی نہ بنیں اور اس کے دفاع میں اہم اور موثر کردار ادا کریں۔ طوفان الاقصی آپریشن نے اسلامی مزاحمتی بلاک کے زندہ ہونے اور اس کا جسد واحد ہونے کا اظہار کیا۔ غزہ کی پٹی پر غاصب صیہونی رژیم کی وحشیانہ جارحیت اور بربریت کے آغاز سے ہی دیگر اسلامی مزاحمتی گروہوں نے فلسطین کے حق میں اسرائیل کے خلاف اعلان جنگ کر دیا۔ یہ اقدامات دراصل اسی حکمت عملی کا نتیجہ تھے جو شہید قاسم سلیمانی نے میدانوں میں اتحاد کے عنوان سے متعارف کروائی تھی۔
 
اسی حکمت عملی کا نتیجہ یہ ہے کہ آج غاصب صیہونی رژیم ایک سال سے زیادہ جارحیت اور بربریت کے باوجود غزہ اور لبنان میں شکست خوردہ اور ناکام نظر آتا ہے۔ ماضی میں صیہونی حکمرانوں نے ہمیشہ درپیش خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے محدود پیمانے پر جنگیں کی ہیں اور طویل المیعاد جنگ سے گریز کیا ہے۔ لیکن اس بار وہ ایک طویل المیعاد جنگ میں داخل ہونے پر مجبور ہوئے ہیں جس کی بنیادی ترین وجہ اسلامی مزاحمتی گروہوں میں اتحاد کے باعث اس خطرے کی شدت ہے جسے وہ محسوس کر رہے ہیں۔ صیہونی رژیم دراصل اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے اور اسے اپنی بقا کو خطرہ محسوس ہوا ہے۔ یہ خطرہ شہید قاسم سلیمانی کی میدانوں میں اتحاد پر مبنی حکمت عملی کا نتیجہ ہے۔ اگرچہ اسلامی مزاحمتی بلاک کو شدید ضربیں لگی ہیں لیکن اس کا وجود باقی ہے اور وہ بدستور زندہ اور بیدار ہے۔ اسی حقیقت نے امریکی اور غاصب صیہونی حکمرانوں کی نیندیں حرام کر رکھی ہیں۔

ای میل کریں