رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے منگل 17 دسمبر 2024 کو مختلف شعبوں سے وابستہ ملک کی ہزاروں خواتین سے ملاقات کے موقع پر حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے ایام ولادت کی مبارک باد پیش کرتے ہوئے ان کی سیرت کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔
انھوں نے عالم آفرینش کے محیر العقول حقائق کی حیثیت سے حضرت زہرا کے وجود اقدس کے بعض پہلوؤں کی تشریح کرنے کے ساتھ ہی عورت کے بارے میں مختلف نظریات اور اس سلسلے میں اسلام کے منشور پر بھی روشنی ڈالی۔ انھوں نے اپنے خطاب میں خطے کی صورتحال کے بارے میں بھی گفتگو کی۔
آيت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے خطے اور مزاحمتی محاذ کے حالات اور شام کے واقعات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ شام میں جو کچھ ہوا اور صیہونی حکومت اور امریکا نے جو جرائم کیے اور اسی طرح دوسروں نے ان کی جو مدد کی اس کی وجہ سے دشمنوں نے یہ سوچا کہ مزاحمت کا کام تمام ہو گيا ہے جبکہ وہ بہت بڑی غلط فہمی میں ہیں۔
انھوں نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ سید حسن نصر اللہ اور یحیی سنوار کی روح زندہ ہے، کہا کہ ان کا جسم چلا گيا لیکن شہادت نے انھیں وجود کے میدان سے باہر نہیں نکالا ہے اور ان کی روح و فکر باقی ہے اور ان کی راہ جاری ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے صیہونیوں کے روزانہ کے حملوں پر غزہ کے ڈٹے رہنے اور لبنان کی مزاحمت جاری رہنے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ صیہونی حکومت بزعم خود اپنے آپ کو شام کے راستے سے حزب اللہ کو گھیرنے اور اسے جڑ سے اکھاڑنے کے لیے تیار کر رہی ہے لیکن جو جڑ سے اکھڑے گا، وہ اسرائيل ہے۔
انھوں نے ایران کے فلسطین اور حزب اللہ کے مجاہدوں کے ساتھ کھڑے رہنے اور ان کی ہر ممکنہ مدد جاری رکھنے پر زور دیتے ہوئے امید ظاہر کی کہ مجاہدین وہ دن دیکھیں گے جب خبیث دشمن ان کے پیروں تلے روندا جا رہا ہوگا۔
آيت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے اپنے خطاب کے ایک دوسرے حصے میں حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی شخصیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ یہ بات بہت ہی باعظمت اور حیرت انگيز ہے کہ ایک نوجوان خاتون روحانی اور ملکوتی تشخص کے لحاظ سے ایسے مقام تک پہنچ جائے کہ شیعہ اور سنی روایات کے مطابق اس کا غضب، خدا کا غضب اور اس کی خوشنودی، اللہ کی خودشنودی بن جائے۔
انھوں نے سختیوں میں پیغمبر کی غم گساری، جہاد میں امیر المومنین کی ہمراہی، عبادت میں فرشتوں کی آنکھیں چکاچوندھ کر دینے، فصیح و بلیغ اور آتشیں خطبے، امام حسن، امام حسین اور حضرت زینب علیہم السلام کی پرورش کو حضرت فاطمہ کی بے نظیر خصوصیات بتایا اور کہا کہ وہ بچپن، نوجوانی، شادی اور زندگی کی سیرت میں مسلمان عورت کا سب سے برتر، سب سے زیبا اور سب سے نمایاں آئيڈیل ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے دنیا میں عورت کے مسئلے میں پائے جانے والے مختلف نظریات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ سرمایہ داری اور سرمایہ داری کے تابع فرمان سیاستداں دنیا کے بااثر میڈیا کے ساتھ پوری دروغ گوئي اور جھوٹ کے ساتھ بظاہر ایک فلسفی اور انسان دوستانہ نظریات کے بھیس میں خواتین کے عالمی معاشرے کے امور میں مداخلت اور ناجائز مفادات کے حصول کے لیے اپنے مجرمانہ اور بدعنوانی سے بھرے ہوئے نظریات کو پوشیدہ رکھتے ہیں۔
انھوں نے جھوٹ اور دکھاوے کو مغربی سامراجیوں اور سرمایہ داروں کی دائمی روش بتایا اور آزادی و خودمختاری کے نام پر سستے مزدوروں کے طور پر خواتین کو کارخانوں میں گھسیٹنے کو اس ریاکاری کی ایک مثال بتایا۔
آيت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے زوجیت کو اسلام میں خواتین کے منشور کی بنیادی اور اہم شق بتایا اور کہا کہ قرآن مجید کی متعدد آیات کی بنیاد پر عورت اور مرد ایک ہی جنس کے ہیں اور وہ ایک دوسرے کا جوڑا اور ایک دوسرے کو مکمل کرنے والے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ زوجیت اور زن و مرد کے مکمل ہونے کا لازمہ، گھرانے کے نام کی ایک تیسری اکائی کی تشکیل ہے۔
انھوں نے ماں کی معنوی قدر و قیمت اور اس پر افتخار کو عورت کے مسئلے میں اسلام کے نظریے کا ایک دوسرا رکن بتایا اور کہا کہ آج سرمایہ دارانہ اور سامراجی پالیسیوں کے سائے میں بعض لوگ اور خودمختار معاشروں کے دشمن خاص طور پر ہمارے معاشرے کے دشمن، ماں کے کردار کی ایک غلط تصویر پیش کرتے ہیں جبکہ ماں کا کردار اور ایک انسان کی پرورش ایک بہت ہی گرانقدر افتخار ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے سیاسی اور عالمی میدانوں میں باوقار سرگرمی اور اسی طرح مقدس دفاع، دفاع حرم اور سیاسی میدان میں کردار کی ادائیگی کو انقلاب کی کامیابی کے بعد خواتین کی سرگرمیوں کے درخشاں جلووں میں شمار کیا اور کہا کہ ایرانی خاتون اپنے تشخص، ثقافت، ملک کی تاریخی اور اصیل روایات کو پوری متانت اور عفت و حیا کے ساتھ محفوظ رکھنے میں کامیاب رہی ہے وہ آج تک ان برے نقصانات میں مبتلا نہیں ہوئي ہے جن سے بہت سے مغربی ممالک متاثر ہوئے ہیں۔
انھوں نے اسی کے ساتھ کہا کہ دشمن بھی بیکار نہیں بیٹھا ہے اور وہ سازشیں کرنے میں مصروف ہے کیونکہ وہ بہت جلد اس بات کو سمجھ گيا کہ جنگ، بمباری، قوم پرستی اور فتنہ انگیز فورسز جیسے طریقوں سے انقلاب کو شکست دینا اور اسے جھکانا ممکن نہیں ہے اسی لیے وہ پروپیگنڈوں، وسوسوں اور جھوٹے نعروں جیسے حربوں کو استعمال کر رہا ہے۔