رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے بدھ 11 دسمبر 2024 کو مختلف عوامی طبقات کے ہزاروں لوگوں سے ملاقات میں شام کے حالات کی مختلف وجوہات، اس ملک میں ایران کی موجودگي کی وجہ، خطے کے آئندہ حالات اور شام کے واقعات کے دروس اور عبرتوں کی تشریح کی۔
انھوں نے شام کے واقعات میں ایک ہمسایہ حکومت کے کھلے کردار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ان سب کے باوجود بہت سے ایسے قرائن ہیں جو بتاتے ہیں کہ اصل سازشی اور سازش تیار کرنے والا عنصر اور اصل کمانڈ روم امریکا اور صیہونی حکومت ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے شام کے حالیہ واقعات کے سلسلے میں صیہونیوں اور امریکیوں کے رویے کو ان ہی قرائن میں سے ایک بتایا اور کہا کہ اگر انھوں نے شام کے واقعات کے سلسلے میں سازش تیار نہ کی ہوتی تو کیوں یہ دوسرے ملکوں کے برخلاف خاموش نہیں بیٹھے اور انھوں نے سیکڑوں بنیادی تنصیبات، ہوائي اڈوں، تحقیقاتی مراکز، سائنسدانوں کی ٹریننگ کے مراکز اور شام کی دوسری جگہوں پر بمباری کر کے جاری واقعات میں عملی طور پر مداخلت کی؟
انھوں نے امریکا کی جانب سے باضابطہ طور پر اس بات کے اعلان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ اس نے ان واقعات کے ابتدائي ایک دو دنوں میں شام کے 75 اہداف پر حملہ کیا ہے، کہا کہ صیہونیوں نے بھی سیکڑوں جگہوں کو نشانہ بنانے کے علاوہ شام کے علاقوں پر بھی قبضہ کیا اور اپنے ٹینکوں کو دمشق کے قریب تک پہنچا دیا اور امریکا جو دوسرے ملکوں میں بہت چھوٹے سرحدی واقعات میں بھی بہت زیادہ حساسیت دکھاتا ہے، نہ صرف یہ کہ کوئي اعتراض نہیں کر رہا ہے بلکہ اس نے مدد بھی کی ہے۔
آيت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے شام کے واقعات میں امریکا اور صیہونی حکومت کی مداخلت کے قرائن میں سے ایک اور کی تشریح کرتے ہوئے کہا کہ آخری دنوں میں شام کے ایک خطے خاص طور پر زینبیہ علاقے کے لوگوں کے لیے بعض امداد اور وسائل بھیجے جانے تھے لیکن صیہونیوں نے سبھی زمینی راستوں کو بند کر دیا اور امریکی اور صیہونی جنگي طیاروں نے بڑے پیمانے پر پروازیں کر کے اس امداد کو فضائي راستے سے بھی منتقل نہیں ہونے دیا۔
انھوں نے شمال اور جنوب کے حملہ آوروں کے اہداف کو، جو شام کے علاقوں پر قبضہ کرنے کے چکر میں ہیں، مختلف بتایا اور کہا کہ امریکا اپنے پیر مضبوطی سے جمانا چاہتا ہے لیکن وقت بتائے گا کہ ان میں سے کوئي بھی اپنے اہداف حاصل نہیں کر پائے گا اور یقینی طور پر شام کے قبضہ کیے گئے علاقے، غیور شامی جوانوں کے ہاتھوں آزاد ہوں گے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے خطے کے آئندہ حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ سامراجی عناصر یہ سوچ رہے ہیں کہ شام کی حکومت گر جانے کے بعد، جو مزاحمتی محاذ کی حامی تھی، مزاحمتی محاذ کمزور ہو گيا لیکن وہ سخت غلط فہمی میں ہیں کیونکہ انھیں مزاحمت اور مزاحمتی محاذ کا مطلب ہی نہیں معلوم ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ مزاحمت ٹوٹنے اور بکھرنے والا ہارڈ وئير نہیں بلکہ ایک ایمان، ایک سوچ، ایک عقیدتی مکتب اور قلبی عزم ہے اور کہا کہ اسی وجہ سے مزاحمت، دباؤ میں زیادہ مضبوط ہوتی ہے اور خباثتیں دیکھ کر اس کے افراد کا جذبہ اور زیادہ مضبوط ہوگا اور وہ اس کا دائرہ مزید وسیع ہو جائے گا۔
آیت اللہ خامنہ ای نے لبنان کے واقعات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ مصائب اور سید حسن نصر اللہ کو کھو دینے کا دباؤ بہت زیادہ تھا لیکن حزب اللہ کی طاقت اور اس کا ہاتھ زیادہ مضبوط ہو گيا اور دشمن بھی یہ حقیقت دیکھ کر جنگ بندی پر مجبور ہوا۔
انھوں نے غزہ میں قاتل صیہونی حکومت کے حد سے زیادہ جرائم اور یحیی سنوار جیسے نمایاں لوگوں کی شہادت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ دشمن سوچ رہا تھا کہ غزہ کے لوگ بمباری کی وجہ سے حماس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے لیکن ہوا اس کے برخلاف اور لوگ پہلے سے زیادہ حماس، اسلامی جہاد اور فلسطین کے دیگر مجاہد گروہوں کے حامی بن گئے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ پورے خطے میں مزاحمت کا دائرہ پھیل جانا، دشمن کے دباؤ اور جرائم کا حتمی نتیجہ ہوگا، کہا کہ وہ جاہل اور بے خبر تجزیہ نگار جو ان واقعات کو ایران کے کمزور ہونے کا سبب سمجھتا ہے، جان لے کہ ایران مضبوط اور طاقتور ہے اور وہ اس سے بھی زیادہ طاقتور بن جائے گا۔
انھوں نے مزاحمت کو اقوام کے ایمان اور عقیدے سے جڑی ہوئي ایک حقیقت بتایا اور کہا کہ حالیہ مہینوں میں مزاحمت پر یقین، خطے کی اقوام یا دوسرے الفاظ میں دنیا کی اقوام کی جانب سے فلسطین کی پرزور حمایت اور صیہونیوں سے نفرت کے اظہار کا سبب بنا ہے۔
آیت اللہ خامنہ ای نے فلسطین پر غاصبانہ قبضے کو پچھتر سال سے زیادہ کا عرصہ گزرنے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اتنا طویل عرصہ گزر جانے کے بعد یہ مسئلہ بھلا دیا جانا چاہیے تھا لیکن آج مسئلۂ فلسطین پر فلسطینیوں اور علاقائي اقوام کی استقامت، اس سرزمین کے غاصبانہ قبضے کے وقت سے دس گنا زیادہ ہے۔
انھوں نے صیہونی حکومت سے تعاون کو اقوام کی ریڈ لائن بتایا اور کہا کہ صیہونیوں اور ان کا ساتھ دینے والوں کو جان لینا چاہیے کہ سنت الہی کی بنیاد پر جرم، کامیابی نہیں دلاتا اور آج یہ سنت الہی اور تاریخی تجربہ غزہ، غرب اردن اور لبنان میں دوہرایا جا رہا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے گزشتہ برسوں میں شام میں ایران کی موجودگي کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ شام کی حکومت کو ہماری مدد سے پہلے یعنی مقدس دفاع کے حساس زمانے میں اور ایسے وقت میں جب سبھی صدام کے مفاد میں اور ہمارے خلاف کام کر رہے تھے، شام کی حکومت نے ایران کی حیاتی مدد کرتے ہوئے عراق سے بحیرۂ روم کی تیل پائپ لائن کو بند کر دیا اور اس کی آمدنی سے صدام کو محروم کر دیا۔
انھوں نے شام اور عراق میں ایران کے بعض جوانوں اور کمانڈروں کی موجودگي کی ایک دوسری وجہ داعش کے فتنے سے مقابلہ بتایا اور کہا کہ داعش بدامنی کا بم تھا اور اس کے ذریعے شام اور عراق کے امن و امان کو ختم کرنے کے بعد ایران پہنچنا اور اصلی اور آخری ہدف کے طور پر ہمارے ملک میں بدامنی اور عدم تحفظ پیدا کرنا تھا۔
آیت اللہ خامنہ ای نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ اصل جنگ، شام کی فوج کے ذریعے لڑی جانی چاہیے تھی، کہا کہ فوج کے ساتھ مل کر دوسرے ملکوں کی رضاکار فورسز بھی جنگ میں شریک ہو سکتی ہیں لیکن اگر فوج کمزوری اور ڈھیلا رویہ دکھائے تو رضاکار فورسز کچھ نہیں کر سکتیں اور افسوس کہ یہی چیز شام میں ہوئي۔
انھوں نے کہا کہ کسی جگہ پر موجودگي کے لیے وہاں کی حکومت کا ساتھ اور اس کی مرضی ضروری ہے جیسا کہ ہم عراق اور شام میں وہاں کی حکومتوں کی درخواست پر پہنچے تھے اور اگر وہ درخواست نہ کریں تو راستہ بند ہے اور مدد کا امکان نہیں ہوگا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے کہا کہ شام کے موجودہ حالات اور مصائب، شام کی فوج کی کمزوری اور مزاحمت و استقامت کی روح میں کمی کا نتیجہ ہے۔
انھوں نے زور دے کر کہا کہ یقینی طور پر غیور شامی جوان اٹھ کھڑے ہوں گے اور اپنی استقامت کے ذریعے، یہاں تک کہ جانوں کی قربانی دے کر، اس صورتحال پر غلبہ حاصل کر لیں گے، جس طرح سے کہ عراق کے غیور جوانوں نے امریکا کے ہاتھوں اپنے ملک پر قبضے کے بعد ہمارے عزیز شہید کی مدد سے اور ان کی کمان میں دشمن کو اپنے گھر اور اپنی سڑکوں سے نکال باہر کیا۔
آیت اللہ خامنہ ای نے شام کے واقعے سے ملنے والے سبق اور عبرت کی تشریح کرتے ہوئے کہا کہ پہلا سبق، دشمن کی طرف سے غافل نہ رہنا ہے۔ شام میں دشمن نے تیز رفتاری سے کام کیا لیکن انھیں پہلے سے اس کا اندازہ لگانا اور روک تھام کرنا چاہیے تھا جیسا کہ ہمارے خفیہ اداروں نے کئي مہینے پہلے شام کے ذمہ داروں کو کئي رپورٹوں میں اس بات کی طرف سے متنبہ کیا تھا۔
انھوں نے کہا کہ انقلاب کے 46 سال بعد ہم بہت سے بڑے اور سخت واقعات سے گزر چکے ہیں لیکن کبھی بھی مختلف اور تلخ واقعات میں اسلامی جمہوریہ ایران نے ایک لمحے کے لیے بھی قدم پیچھے نہیں کھینچے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے آخری حصے میں ایرانی قوم کو آمادہ بتایا اور زور دے کر کہا کہ اللہ کی توفیق سے صیہونیت اور اس خطے میں اس کے خبیث مغربی پٹھوؤں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے گا۔