تحریر: ارشاد حسین ناصر
یوں تو فلسطینی گذشتہ پچھتر برسوں سے غاصب اسرائیل کے ظلم کے نتیجے میں دربدری، ہجرت اور مشکلات سے دوچار ہیں، مگر سات اکتوبر طوفان الاقصیٰ کے بعد سے اسرائیل نے کارپٹ بمبارمنٹ سے جو تباہی پھیلائی ہے، اس کی مثال کہیں نہیں ملتی۔ دودھ پیتے بچوں سے لیکر عورتوں اور پرامن غیر مسلح حتی ٰمیڈیکل سے وابستہ کارکنان اور ڈاکٹرز کو اسپتالوں سمیت اجاڑ دیا ہے۔ جس کی وجہ سے اہل غزہ کے گھر تباہ ہوچکے، رہائشی عمارات کھنڈر بنا دی گئی ہیں۔ لاکھوں لوگ ہجرت کرکے کیمپوں میں رہنے پر مجبور ہیں۔ دوسری طرف لبنان پر بھی شدید یلغار اور مسلسل حملوں سے ہزاروں لوگ در بدر ہوچکے ہیں۔ لبنان و غزہ کے مظلوموں کی مدد کی صدا کوئی نہیں سن رہا۔ اس وقت جب سردی شدید ہو رہی ہے، آباد و خوشحال گھروں کے مقیم خیموں میں حالت مجبوری میں رہ رہے ہیں۔
لبنان نے مزاحمت کی جو تاریخ رقم کی ہے، اس کے نتیجے میں اسرائیل نے جنگ بندی قبول کی ہے۔ عجیب حالات ہیں، عجیب مناظر دیکھنے کو مل رہے ہیں، جن کے ہنستے بستے گھر اجڑ چکے ہیں، وہ روتے دھوتے الزام دیتے یا ماتم کناں واپس نہیں ہو رہے بلکہ ان کے چہروں پر مسکراہٹ ہے۔ ان کے چہرے کھلے ہوئے ہیں، ان کی زبانوں پر لبیک یاحسین ؑ ، لبیک یانصراللہ کے شعار ہیں۔ حزب اللہ کے جھنڈے لہراتے اہل لبنان اپنے اجڑنے کا ماتم کرنے کی بجائے، فتح کے نقارے بجاتے دیکھے جا سکتے ہیں۔ جو لوگ اللہ پر یقین رکھتے ہیں، اس سے امید باندھتے ہیں اور ڈٹ جاتے ہیں، ان کیلئے اللہ کی مدد ضرور ہوتی ہے۔ اہل غزہ و اہل لبنان کی تاریخ ڈٹ جانے کی ہے، مقاومت کی ہے، مزاحمت کی ہے، برسرپیکار رہنے کی ہے۔ لہذا ان کیلئے فتح ہے، ان کیلئے کامیابی یقینی ہے، ان کیلئے خوش خبریاں یقینی ہیں۔
جنگ بندی میں دراصل ناجائز وجود اسرائیل کی شکست اور مجاہدین و مقاومین کی فتح کا اعلان ہے۔ اسرائیل جیسی ایٹمی جدید اسلحہ سے لیس ناجائز ریاست کو اپنے مقصد کہ حزب اللہ کو غیر مسلح کرنا، میں مکمل ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے، جبکہ اس کے لاکھوں آبادکار شمال اسرائیل سے بھاگنے پر مجبور ہوئے ہیں، جن کو واپسی موت کی صورت خوف زدہ کیے ہوئے ہے، جبکہ اہل لبنان جنگ بندی کے اعلان کیساتھ ہی اپنے چہروں پر مسکراہٹ سجائے واپس لوٹ رہے ہیں۔ اگرچہ ان کے دل مغموم ہیں، ان کے قلب زخمی ہیں، ان کا سید ان سے جدا ہوا ہے۔ ان کا سرپرست ان سے چھینا گیا ہے، یہ ایک ایسا زخم ہے، جو تمام زخموں سے بڑا اور عظیم دکھ ہے، اس کے باوجود یہ لوگ جنگ بندی کے اعلان کے بعد بہت بلند حوصلوں کیساتھ واپس لوٹے دیکھے جا رہے ہیں۔
ایسے میں امت کا فرض بنتا ہے کہ اہل لبنان و اہل غزہ کی بحالی بالخصوص ان سردیوں میں انہیں بنیادی ضروریات بہم پہنچانے کیلئے قربانی دیں، ایثار کا مظاہرہ کریں، اپنی ضروریات میں سے کچھ نا کچھ بچا کر اس مرحلے میں اہل لبنان و اہل غزہ کی بحالی میں اپنا حصہ ڈالیں۔ یہ وہ لوگ ہیں، جن کے دم سے مسلمانوں کی عزت و توقیر ہے، جن کے وجود اور نام سے اسلام کے دشمن کانپ جاتے ہیں۔ جو شہادتوں و قربانیوں میں سب سے آگے ہیں، جو جہاد کے دروازے ہمیشہ کھلے رکھتے ہیں۔ جو عزت کا راستہ چنتے ہیں، جو غیرت کے راہی ہیں، ان کی مدد اور کمک ہمارے اوپر واجبات کی طرح ہے۔
قرآن مجید میں آیت ربانی میں وارد ہے۔۔ "تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں ان ناتواں مردوں، عورتوں اور بچوں کی نجات کے لیے جہاد نہیں کرتے، جو دعائیں مانگ رہے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار! ان ظالموں کی بستی سے ہمیں نجات دے اور ہمارے لیے اپنی طرف سے ہمارا حمایتی کھڑا کر دے اور ہمارے لیے خاص اپنے پاس سے مددگار بنا۔"(سورۃ النساء آیت ۷۵) ایک روایت نقل ہوئی ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "جو بندہ اپنے بھائی کی ضرورت پوری کرتا ہے، یہ اس شخص سے بہتر ہے، جو دس سال اعتکاف میں گزارے اور ایک دن کا ایسا اعتکاف جو اللہ کی رضاء حاصل کرنے کے لیے ہو، وہ انسان کو جہنم سے تین خندق دور کر دیتا ہے، جبکہ ایک خندق میں مشرق و مغرب جتنا فاصلہ ہے۔ (یعنی بندے کو جہنم سے اتنا دور فرما دیں گے، جتنا کہ مشرق اور مغرب کے درمیان طویل فاصلہ ہے)
اہل غزہ (فلسطینی) اور لبنان کے مظلوموں، مجبوروں کی نصرت و مالی امداد اسوقت ایسا جہاد ہے، جو ہر اس شخص پر فرض ہے، جو اس کی استطاعت رکھتا ہے، جو جتنی استطاعت رکھتا ہے، اسے اتنا حصہ ڈالنا چاہیئے۔ مجتھدین کرام بالاخص آیت اللہ العظمیٰ سید علی سیستانی اور رہبر معظم آیت اللہ سید علی خامنہ ای سمیت بہت سے مجتھدین نے اہل لبنان و اہل فلسطین کی مدد کرنے کا حکم فرمایا ہے اور اموال شرعیہ میں سے اس عنوان سے خرچ کی اجازت مرحمت فرمائی ہے۔ یہ ایک انسانی فریضہ بھی ہے کہ ہم مظلوموں کی مدد کریں، اجڑے مکانوں، عالیشان گھروں کے بے سائبان خیموں کے مکینوں کے ڈوبتے دلوں اور مایوسی کو امید میں بدلنے کا سبب بنیں۔ یہ وقت کا تقاضا ہے، ہمیں آگے بڑھنا ہوگا، ہمیں ایثار گری کا مظاہرہ کرنا ہوگا، ہمیں اخوت و بھائی چارگی کے لوازمات پورے کرنا ہونگے۔
بہت سے ملکوں بشمول ایران میں لوگوں کا جذبہ دیدنی اور ایک روشن مثال ہے، جہاں خواتین اپنے جہیز کی قیمتی اشیاء اور سونے چاندی کے زیورات اہل لبنان کی مدد کیلئے ہدیہ کرنے کی بہت سی ویڈیوز دکھائی دی ہیں، ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ ہم نے کیا، کیا ہے، ہمارا کیا حصہ ہے۔؟ کیا ہم نے اپنی استطاعت کے مطابق ایثار گری کا مظاہرہ کیا ہے یا آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔؟ اس فرض کی ادائیگی اور جذبہ اخوت و ایثار کیلئے ہماری قومی و ملی جماعتوں نیز اجتماعی پلیٹ فارمز کو جو کردار ادا کرنا چاہیئے تھا، وہ نظر نہیں آیا۔ اس پر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔ اگر آّج ہم نے ان اجڑے گھروں کے مکینوں، خیمہ بستیوں میں شدید سردی میں رہنے والوں کیلئے ایثار گری کا مظاہرہ نہیں کیا تو کل یہ وقت کسی پہ بھی آسکتا ہے۔ اگرچہ اس وقت کرم ایجنسی کے شہداء کے خانوادوں کی بھی اشد ضروریات ہیں، انہیں بھی فراموش نہیں کرنا چاہیئے، مگر اہل لبنان و غزہ و فلسطین جس بڑی تعداد میں متاثر ہوئے ہیں، اس میں سب کو اپنا حصہ ڈالنے کی اشد ضرورت ہے۔ شکریہ