تحریر: نذر حافی
اسرائیل تو ہے ہی دہشت گرد۔ تاہم ایران کے اندر فلسطینی رہنماء اسماعیل ہنیہ کو نشانہ بنانے کی وجوہات کو سمجھنا ضروری ہے۔ امریکی و اسرائیلی تھنک ٹینکس ہر ممکنہ ردِّعمل کا حساب کتاب کرچکے ہیں۔ ایسے میں ایران کی طرف سے کسی بچگانہ جواب کی امید رکھنا بھی عبث ہے۔ دشمن کے تیار کئے ہوئے میدان میں جنگ کیلئے اترنا کسی طور بھی دانشمندی نہیں۔ شہید قاسم سلیمانی کے بعد اسماعیل ہنیہ نے بھی یہ ثابت کر دیا ہے کہ شہید ہی شہید ہوتے ہیں اور بہترین زندگی شہادت ہے۔ اب شہداء کے وارثوں نے یہ ثابت کرنا ہے کہ وہ شہید ہونے والوں کے خون سے شعور اور بیداری کی شمعیں جلاتے ہیں یا فقط جذباتی و احساساتی ردّعمل تک محدود رہتے ہیں۔
جہانِ اسلام میں شہید اسماعیل ہنیہ کے قتل کے بعد مجموعی طور پر تین طرح کا ردِّعمل دیکھنے میں آیا ہے:
۱۔ اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جائے
۲۔ نفع نقصان کا خیال کئے بغیر جنگ میں کودا جائے
۳۔ ناپ تول کر مناسب اور تادیبی جوابی کارروائی کی جائے
پہلے دونوں آپشنز خود امریکہ و اسرائیل کے تیار کردہ ہیں اور ان آپشنز کو اختیار کرنے والے افراد شعوری یا لاشعوری طور پر وہی چاہتے ہیں، جو امریکہ و اسرائیل کی منصوبہ بندی کے عین مطابق ہے۔ امریکہ و اسرائیل کی بوکھلاہٹ کا حقیقی سبب سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں اسلامی جمہوریہ ایران کی پیشرفت ہے۔ ایران کی دشمن طاقتیں یہ چاہتی ہیں کہ کسی نہ کسی طرح ایران کو افغانستان کی مانند کھنڈرات میں تبدیل کیا جائے۔ چنانچہ ایسا ہر عمل غیر منطقی اور دشمن کی خواہشات کی تکمیل کا باعث ہے، جو ایران کی ترقی و پیشرفت میں مانع ہو۔
اب جہاں تک اسماعیل ہنیہ کے قصاص لینے اور قتل کا انتقام لینے کی بات ہے تو یہ قصاص اور انتقام تو ہر فلسطینی کا لیا جانا چاہیئے اور یہ ہر مسلمان پر واجب ہے۔ مسلمان ہونے سے ہٹ کر بھی یہ ہر باشعور انسان پر لازم ہے کہ وہ اسرائیل کی درندگی کو روکنے کیلئے اپنا کردار ادا کرے۔ اسماعیل ہنیہ کی ٹارگٹ کلنگ یہ واضح کر رہی ہے کہ امریکہ و اسرائیل میدان میں آکر فلسطینیوں کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ شہادت کی موت تو اسماعیل ہنیہ جیسوں کیلئے ایک انعام ہے۔ موت دو طرح کی ہوتی ہے۔ ایک وہ جسے دیکھ کر دوسروں کو خوف آتا ہے اور ایک وہ جسے دیکھ کر موت کا خوف اتر جاتا ہے۔ اسماعیل ہنیہ نہ خود کبھی موت سے ڈرے، نہ انہوں نے موت سے ڈرنے والوں کا راستہ اپنایا اور نہ ہی ان کی موت کو دیکھ کر کسی پر خوف طاری ہوا بلکہ اسماعیل ہنیہ کی موت نے سارے جہان اسلام میں شہادت کی تڑپ کو مزید شدید کر دیا ہے۔
یاد رہے کہ اسماعیل ہنیہ کی شہادت سے امریکہ و اسرائیل کا یہ خواب ہرگز پورا ہوتا دکھائی نہیں دیتا کہ وہ اسماعیل ہنیہ کی جگہ کسی مصلحت پسند اور عافیت طلب شخصیّت کو میدان میں لا کر اپنے مفادات حاصل کرسکیں گے۔ یہ اسماعیل ہنیہ کی موت نہیں بلکہ اسرائیل و امریکہ کے سارے خوابوں کی موت واقع ہوئی ہے اور اس کے بعد فلسطینی سیاست میں اسرائیل کے خلاف مزید مقاومتی روح پیدا ہوتی نظر آرہی ہے۔ اسماعیل ہنیہ کو حذف کرکے فلسطین کے مسئلے کو من پسند انداز میں حل کرنے کا خواب کبھی پورا ہونے والا نہیں۔
قارئین کرام یہ فراموش نہ کیجئے کہ ایران کے اندر جہاں اسماعیل ہنیہ کو نشانہ بنانا اسرائیل کی ایک جنگی چال ہے، وہیں ایران بھی مقاومتی محاذ کا ہوشیار اور بیدار مرکز ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ آج ایران کے دل کو نشانہ بنایا گیا ہے، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مقاومتی بلاک کی طرف سے انتقام تو امریکہ و اسرائیل سے لیا جائے گا، ضرور لیا جائے گا، لیکن اب کی بار طوفان الاقصیٰ کی مانند بالکل غیر متوقع اور پہلے سے قدرے مختلف انداز میں۔۔۔