روز اول سے ہی انبیاء کرام (علیہم السلام) کے دو کام تھے: ایک یہ کہ وہ لوگوں کونفس کی اسارت سے، اپنی ذات کی قید سے اور شیطان کی بڑائی سے نکالیں یہ اُن کا پہلا معنوی کام ہے اور دوسرا کام یہ کہ وہ لوگوں اور کمزوروں کو ظالموں کے چنگل سے نجات دلائیں۔ انبیاء کرام (علیہم السلام) کے یہی دو کام تھے جب انسان حضرت موسی (علیہ السلام) کو حضرت عیسی (علیہ السلام) کو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو دیکھتا ہے اور ان کے بارے میں جو باتیں قرآن میں نقل ہوئی ہیں اُنہیں دیکھتا ہے تو اُسے پتا چلتا ہے کہ ان کی یہی دو ذمہ داریاں تھیں ایک لوگوں کو توحید کی طرف دعوت دینا، دوسرا بے سہاروں کو ظلم وستم سے نجات دلانا۔ اگر حضرت عیسی (علیہ السلام) کی تعلیمات میں یہ چیز کم نظر آتی ہے تو اس کی وجہ اُن کی کم عمری ہے اور وہ لوگوں سے کم رابطہ رکھ سکے ہیں ورنہ اُن کا طریقہ بھی حضرت موسیٰ اور دوسرے تمام انبیاء (علیہم السلام) ہی کا طریقہ تھا۔ ان میں سب سے بڑھ کر رسول خدا (صلی الله علیه و آلہ و سلم) ہیں کہ ہم ان دونوں طریقوں کو قرآن وسنت اور خود رسول اللہ (صلی الله علیه و آلہ و سلم) کے عمل میں دیکھتے ہیں۔
قرآن کریم اس حد تک معنویت کی جانب دعوت دیتا ہے کہ جہاں تک انسان کی رسائی ہے اور اس سے آگے بڑھ کر عدل وانصاف کو برقرار کرتا ہے۔ پیغمبر اکرم (صلی الله علیه و آلہ و سلم) اور وہ تمام افراد جو وحی کے ترجمان تھے سب انہی دو طریقوں پرعمل پیرا تھے۔ خود رسول اکرم (صلی الله علیه و آلہ و سلم) کی سیرت یہی تھی کہ جب تک آپ نے حکومت تشکیل نہیں دی تھی آپ معنویت کو مضبوط کرتے رہے اور جیسے ہی آپ (صلی الله علیه و آلہ و سلم) نے حکومت کو تشکیل دیا تو آپ (صلی الله علیه و آلہ و سلم) نے معنویت کی طرف بھرپور توجہ کے ساتھ ساتھ عدل وانصاف کو بھی رائج کیا، آپ ؐکے تشکیل حکومت کے ذریعے حاجتمندوں (اور مظلوموں) کو ظالموں کے ظلم سے کہ جہاں تک زندگی نے ساتھ دیا، نجات دی اور یہ انبیاء کرام (علیہم السلام) کی دائمی سیرت رہی ہے، لہذا جو لوگ اپنے آپ کو انبیاء کرام (علیہم السلام) کا تابع جانتے ہیں اُنہیں اسی دائمی سیرت پر باقی رہنا چاہیے۔
(صحیفہ امام، ج ۱۷، ص ۵۲۷)