امریکہ کی طلبہ تحریکیں اور ہمارے لیے عبرتیں

امریکہ کی طلبہ تحریکیں اور ہمارے لیے عبرتیں

امریکی طلبہ کی اسرائیل مخالف تحریک اس وقت پورے امریکہ میں پھیل چکی ہے

تحریر: سید اسد عباس

 

امریکی طلبہ کی اسرائیل مخالف تحریک اس وقت پورے امریکہ میں پھیل چکی ہے۔ غزہ جنگ کے خلاف احتجاج کرنے والے طلبہ اپنی جامعات سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ خود کو ایسی کمپنیوں سے علیحدہ کریں، جو غزہ میں اسرائیل کی عسکری مہم سے تعلق رکھتی ہیں۔ بعض مظاہرین جامعات پر اسرائیل کے بائیکاٹ کا مطالبہ بھی کر رہے ہیں۔ یونیورسٹی اور سدرن کیلی فورنیا، یونیورسٹی آف ٹیکساس، جارج واشنگٹن یونیورسٹی، ہارورڈ یونیورسٹی، کیلی فورنیا اسٹیٹ پولی ٹیکنک یونیورسٹی، ایمرسن کالج، نیویار یونیورسٹی، ایموری یونیورسٹی، نارتھ ویسٹ یونیورسٹی، ییل یونیورسٹی سمیت مختلف جامعات میں مظاہرے کیے گئے ہیں۔ سترہ سو کے قریب طلبہ اور اساتذہ گرفتار کیے جا چکے ہیں۔ پولیس اور طلبہ کے مابین آنکھ مچولی روزمرہ کا معمول ہے۔ طلبہ جنھوں نے یونیورسٹی کے میدانوں میں خیمے لگا رکھے ہیں، ان خیموں پر فلسطینی پرچم لہراتے ہیں، فلسطینی آزادی کے ترانے سب کو ان خیام کی جانب متوجہ کرتے ہیں۔ کئی ایک یونیورسٹیوں نے اسرائیل مخالف مظاہروں پر پابندی لگا رکھی ہے۔

 

یہاں یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں کہ ہم امریکہ میں اس سے قبل اٹھنے والی چند کامیاب تحریکوں کا احوال اور ان کے نتائج کو جانیں۔ طلبہ اور اساتذہ مغربی معاشرے کا ایک اہم حصہ ہیں۔ یہ دونوں مل کر مغربی معاشرے کے فکری ڈھانچے کی تشکیل کرتے ہیں۔ اسی وجہ سے امریکی یونیورسٹیوں میں ہونے والا احتجاج مغربی معاشرے کی سماجی بنت کو سمجھنے کے لیے نہایت اہم ہے۔ امریکہ میں طلبہ کے احتجاج کی تاریخ امریکی انقلاب سے بھی پہلے سے شروع ہوتی ہے۔ اس سلسلے کی اولین مثال 1776ء میں ہارورڈ کے طلبہ کے احتجاج کی صورت میں ملتی ہے۔ اس احتجاج کو "مکھن بغاوت" کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ طلبہ نے خراب مکھن دینے کے خلاف احتجاج شروع کیا تھا، اسی لیے اسے یہ نام دیا گیا۔ جیرار لکھتے ہیں کہ 1760ء کی دہائی میں امریکی طلبہ نے تاجِ برطانیہ کے خلاف احتجاج کیا۔ 1830ء کی دہائی میں یہ غلامی کے خلاف سڑکوں پر آئے۔

 

امریکہ میں طلبہ احتجاج کی ایک اور کامیاب مثال 1954 میں "براؤن بنام بورڈ آف ایجوکیشن" کے نام سے معروف مقدمے میں تعلیمی اداروں میں نسلی بنیادوں پر علیحدگی (سیگریگیشن) کو غیر آئینی قرار دیا جانا ہے۔ اس مقدمے کے فیصلے کے باوجود ریاست کے تعلیمی اداروں میں نسلی تفریق پر مبنی کئی قواعد برقرار تھے۔ فروری 1960ء میں نارتھ کیرولائنا کے گرینزبورو ایگری کلچر اینڈ ٹیکنیکل یونیورسٹی میں طلبہ نے کیفے میں سفید فام طلبہ کے لیے علیحدہ کاؤنٹر کے خلاف دھرنا دیا جو بعدازاں امریکہ کی جنوبی ریاستوں کے 50 شہروں تک پہنچ گیا۔ سول رائٹس موومنٹ کی کامیابی کے بعد امریکہ کی جامعات اور تعلیمی اداروں میں 1960ء کی دہائی کے آخر میں ایک اور پرزور تحریک نے سر اٹھایا، جو ویت نام جنگ میں امریکہ کی شمولیت کے خلاف تھی۔

 

اپریل 1968ء میں کولمبیا یونیورسٹی سے ویت نام جنگ میں امریکہ کے کردار کے خلاف مظاہروں کا آغاز ہوا۔ یہ وہی یونیورسٹی ہے جہاں گذشتہ ہفتے اسرائیل کے خلاف احتجاج کرنے والے 100 مظاہرین کو گرفتار کیا گیا تھا۔ ویت نام جنگ کے خلاف کولمبیا یونیورسٹی کے طلبہ کے احتجاج کی وجہ سے کولمبیا یونیورسٹی نے پینٹاگان کے اس انسٹی ٹیوٹ کے ساتھ اشتراک ختم کر دیا تھا، جو ویت نام جنگ پر تحقیق کر رہا تھا۔ کولمبیا اور ہارورڈ یونیورسٹی کے علاوہ امریکہ کی کئی بڑی جامعات کے طلبہ گروپس نے اس تحریک میں حصہ لیا۔ کئی مواقع پر ان مظاہروں میں تشدد کا عنصر بھی شامل ہوا۔ مئی 1970ء میں اوہایو کی کینٹ اسٹیٹ یونیورسٹی میں ویت نام جنگ میں امریکہ کے کردار اور اسے کمبوڈیا تک بڑھانے کے خلاف احتجاج کے دوران نینشل گارڈز کی جانب سے گولی چلا دی گئی۔ اس واقعے میں چار طلبہ کی موت واقع ہوئی تھی۔

 

طلبہ کی ہلاکت کے بعد امریکہ میں لاکھوں طلبہ نے مظاہروں میں حصہ لیا اور سینکڑوں تعلیمی اداروں میں تدریس کا بائیکاٹ کیا۔ ان مظاہروں نے امریکہ میں ویت نام جنگ پر پہلے سے پائے جانے والے اختلاف رائے کو مزید واضح کیا اور سماجی طور پر دور رس اثرات مرتب کیے۔ امریکہ نے دو دہائیوں تک جاری رہنے والی ویت نام جنگ میں شامل رہنے کے بعد 1973ء میں ویت نام سے اپنی فوج واپس بلا لی تھی۔ امریکی جامعات میں 1970ء اور 1980ء کی دہائی میں اٹھنے والی احتجاجی لہر جنوبی افریقہ میں نسلی تفریق پر قائم اپارتھائیڈ نظام کے خلاف تھی۔ سن 1985ء تک عالمی سطح پر جنوبی افریقہ میں قائم اپارتھائیڈ کے خلاف آوازیں زور پکڑ رہی تھیں۔ امریکہ میں کولمبیا اور یونیورسٹی آف کیلی فورنیا جیسی جامعات کے طلبہ نے بھی اس میں حصہ لیا اور انتظامیہ سے جنوبی افریقہ میں سرمایہ کاری ختم کرنے کا مطالبہ شروع کردیا۔

 

مورخین کے مطابق ان مظاہروں نے جنوبی افریقہ کی نسل پرستانہ حکومت پر سیاسی اور معاشی دباؤ بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا۔ 1990ء کی دہائی میں جنوبی افریقہ سے اپارتھائیڈ سسٹم کا خاتمہ ہوگیا۔ الجزیرہ کے مطابق امریکہ میں ہونے والا احتجاج 26 یونیورسٹیوں میں پھیل چکا ہے، جسے روکنا اب امریکی حکومت کے بس میں نہیں رہا۔ احتجاج کی شدت میں روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے۔ امریکہ میں تقریباً 20 ملین طلباء ہیں۔ اسرائیل کی حمایت کا مسئلہ امریکہ کے اہم پالیسی امور میں سے ایک ہے، شائد اب تک اٹھنے والی تحریکوں میں طلبہ کی یہ سب سے مشکل اور بڑی تحریک ہے، اسی وجہ سے امریکی حکومت اس احتجاج سے سختی سے نمٹ رہی ہے، لیکن ایک امر بدیہی ہے کہ اس احتجاج کے بعد امریکہ کے لیے اسرائیل کی پہلے جیسی سرپرستی ممکن نہیں رہے گی۔

 

امریکی کمپنیاں جو اسرائیل اور یہودیوں کی خوشنودی کے لیے فلسطینیوں کے قتل عام میں شامل ہیں، اب پہلے جیسی جرات سے اپنا کاروبار جاری نہیں رکھ سکیں گی۔ ملک کا میڈیا جو اسرائیل حماس جنگ کے حوالے سے یکطرفہ تصویر دکھا رہا تھا، اس پر سے بھی لوگوں کا اعتماد اٹھ گیا ہے اور لوگوں تک حقائق سوشل میڈیا کے ذریعے سے پہنچ رہے ہیں۔ پوری دنیا میں اس احتجاج کی وجہ سے مسئلہ فلسطین اجاگر ہوا ہے اور لوگ اب مغربی ذرائع ابلاغ کے بجائے حقائق جاننے کے لیے دیگر ذرائع کا انتخاب کر رہے ہیں۔ ان حالات نے اسرائیل کے لیے بھی مشکلات پیدا کر دی ہیں، جس کے اثرات بہت جلد دیکھنے کو ملیں گے۔

 

اس احتجاج کے حوالے سے ایک بہت اہم بات یہ ہے کہ مسلمان ریاستوں کو اس احتجاج سے کیا سبق لینا چاہیئے، میرے خیال میں ایک سبق تو یہ ہے کہ مسلمانوں کو بھی امریکیوں کی اس تحریک سے حوصلہ لیتے ہوئے فلسطین کے حوالے سے اپنے موقف کو مغربی اداروں تک جرات مندی کے ساتھ اور واضح طور پر پہنچانا چاہیئے، دوسرا سبق ایک تصور سے جڑا ہوا ہے۔ تصور کریں کہ پاکستان یا کسی دوسرے اسلامی ملک میں بنیادی حکومتی پالیسی کے خلاف طلبہ تحریک کا آغاز ہوتا تو آج تک دسیوں لاشیں گر چکی ہوتیں، ہزاروں گرفتاریوں کے علاوہ سینکڑوں گمشدہ کر دیئے گئے ہوتے، فوجی عدالتوں میں ان کے خلاف مقدمات چلائے جا رہے ہوتے، سخت سزائیں سنائی جاتیں۔ چادر و چار دیواری کا تقدس پامال ہوتا، انسانیت کی تذلیل ہوتی، میڈیا پر ان کو دہشت گرد کے طور پر پیش کیا جاتا، توڑ پھوڑ اور ریاستی املاک کو نقصان پہنچایا جاتا۔

 

اس سب کے باوجود ہم مسلمان بھی رہتے اور دعویٰ بھی کرتے کہ ہم نبی رحمت اور سچے دین کے پیروکار تہذیب یافتہ لوگ ہیں اور ساتھ یہ وعظ بھی کرتے کہ اہل مغرب بےشعور، بداخلاق، بدتہذیب اور بے حیا قوم ہیں۔ امریکہ میں ہونے والا یہ احتجاج اور اس کو روکنے کے لیے حکومتی اقدامات مسلمان حکومتوں اور صاحبان اقتدار کے لیے بہت سے اسباق لیے ہوئے ہے۔ قومیں آئین و قانون کی حکمرانی اور اصولوں پر عمل درآمد سے ہی ترقی کرتی ہیں، اس کے لیے جلد کا رنگ، نسل اور مذہبی وابستگی کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔امریکی طلبہ نے جہاں امریکی و اسرائیلی حکومت کو ناکوں چنے چبوائے ہیں، وہاں مغربی معاشرے کے بارے میں ہمارے بہت سے اندازوں کو بھی غلط ثابت کیا ہے۔

ای میل کریں