تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس
اسرائیل نے تمام بین الاقوامی قوانین کی دھجیاں اڑاتے ہوئے شام میں ایران کے سفارتخانے پر حملہ کیا، جس میں سفارتی اہلکار شہید ہوگئے۔ چاہیئے تو یہ تھا کہ اس اسرائیلی جارحیت کے خلاف مشرق و مغرب کے تمام ممالک ایران کا ساتھ دیتے۔ اسرائیل کی مذمت ہوتی اور اس سے اس کا حساب طلب کیا جاتا، مگر اسرائیل خطے میں استعمار کا وہ مہرہ ہے، جو شتر بے مہار کی طرح دندناتا پھرتا ہے اور اس سے حساب مانگنے والا کوئی نہیں ہے۔ مغرب کے ردعمل کو دیکھ کر تو یوں لگتا ہے جیسے اسرائیل نے یہ حملہ کرکے بہت اچھا کیا اور اسے تھپکی دی جا رہی ہے کہ ایسے مزید حملے بھی بوقت ضرورت لازمی کریں، ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ بین الاقوامی قانون ایران کو اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ وہ اس کھلی جارحیت کا بدلہ لے۔ اسی بات کو لے کر امریکی صدر اسرائیلی وزیراعظم سے بھی زیادہ پریشان ہیں۔ فرماتے ہیں کہ ایران "جلد از جلد" اسرائیل پر حملہ کرے گا۔
رواں ماہ کے آغاز میں ہونے والے فضائی حملے میں اعلیٰ کمانڈروں کی شہادت کے بعد ایران کی جانب سے انتقامی کارروائی کے خطرات بڑھ گئے ہیں۔ یہاں جلد از جلد کے الفاظ قابل توجہ ہیں، ایران جوابی کارروائی کرے گا، مگر امریکی اور اسرائیلی بیانات سے لگتا ہے جیسے وہ ایران کو ٹریپ کر رہے ہیں۔ ایرانی قیادت نے بھی بدلے کی بات کی، مگر وقت اور مقام اپنی مرضی سے چننے کا کہا، یہ بہت اعلیٰ حکمت عملی ہے۔ پوری یورپی دنیا لگی ہوئی ہے کہ ایران کو کسی طرح کا ردعمل نہیں دینا چاہیئے۔ پچھلے چند دنوں میں تقریباً تمام اہم یورپی ممالک کے وزرائے خارجہ نے ایرانی وزیر خارجہ سے بات چیت کی، مختصراً ملاحظہ کریں۔
ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان اور برطانیہ کے وزیر خارجہ لارڈ کیمرون کے درمیان ٹیلی فون پر بات ہوئی ہے، اس میں کیمرون نے خطے میں کشیدگی کو کم کرنے پر زور دیا ہے۔ جرمن وزیر خارجہ نے ایرانی وزیر خارجہ سے بات چیت کی۔ پیغام یہ تھا کہ اسرائیل پر حملہ نہ کریں اور حالات کو مزید خراب نہ کریں۔فرانسیسی صدر میکرون: میں نے ایران کو خبردار کیا کہ وہ اسرائیل پر حملہ نہ کرے۔ برطانوی وزیراعظم رشی سونک نے کہا کہ ایران کی جانب سے دھمکیاں مکمل طور پر ناقابل قبول ہیں اور ہم امریکیوں کی طرح اسرائیل کو اپنے دفاع کے حق کی مکمل حمایت کرتے ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے چین، سعودی عرب اور ترکی کے وزرائے خارجہ سے بات کی ہے اور کہا ہے کہ مزید کشیدگی کسی کے مفاد میں نہیں ہے۔
ان سفارتی سرگرمیوں سے لگتا یہ ہے کہ یہ اپنے ممالک کے رہنماء نہیں بلکہ اسرائیل کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے کارندے ہیں۔ ان ممالک کا ہی اسلحہ اور ٹیکنالوجی اس سفارتی قتل عام میں استعمال ہوئی ہے۔ ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان نے بھی خطے کے ممالک سے بھرپور رابطے کیے ہیں۔ متحدہ عرب امارات، کویت، قطر، سعودی عرب، عراق اور ترکی سمیت خطے کے دیگر مسلمان ممالک کے ہم مناصب سے ٹیلی فونک رابطہ کیا اور یقین دہانی چاہی ہے کہ ایران کے اسرائیل پر جوابی حملے کے بعد وہ ممکن بنائیں کہ ان کی سرزمینوں پر موجود امریکی فوجی اڈوں سے ایران پر حملہ نہیں ہوگا۔ امریکی وزیر خارجہ کی کال کے بعد یہ ممالک بھی امریکی پالیسی کے پرچارک بن کر سامنے آرہے ہیں اور حملے نہ کرنے کا کہہ رہے ہیں۔ یاد رکھیں، یہی ممالک آج تک امریکہ کو یہ کہنے کی جرات نہیں کرسکے کہ وہ اسرائیل کی حمایت ختم کرکے جنگ بندی کرائے۔
اخباری اطلاعات کے مطابق اقوام متحدہ میں موجود ایرانی مندوب نے اعلان کیا ہے، اگر سلامتی کونسل سے اسرائیلی حملے کیخلاف متفقہ قرارداد پاس ہو جائے تو وہ اسرائیل پر جوابی حملہ نہیں کرے گا۔ اس قرارداد کا سیدھا سادھا مطلب یہ ہوگا کہ ایرانی حکام مستقبل میں شام یا لبنان میں ایرانی افسران پر حملوں کے جواب میں اسرائیل پر جوابی حملوں کا لائسنس مانگ رہے ہیں۔حالات بہت کشیدہ ہیں اور جنگ ہر سمت تباہی لائے گی۔ ایران اس معاملے کو ایسے ہی نہیں جانے دے گا اور اپنے وقت و مقام پر کارروائی کرے گا اور ایسا ہی کرنا چاہیئے، کسی کے ٹریپ میں نہیں آنا چاہیئے۔ دنیا میں کوئی اصول اور ضابطہ نہیں ہے، یہاں ابتدائے آدمیت سے ہی طاقت کا قانون چلتا ہے اور آج بھی یہی ہے۔ جس کے پاس طاقت ہوگی، اس کے نزدیک کوئی نہیں آئے گا۔ کمزور کے خلاف ہر قاعدہ و قانون استعمال کیا جائے گا۔
اسرائیلی میڈیا کے مطابق اسرائیل کی جانب سے اقتصادی تعاون اور ترقی کی تنظیم (OECD) میں شمولیت کی درخواست کی منظوری کے بدلے انڈونیشیا نے اسرائیل کو تسلیم کرکے تعلقات معمول پر لانے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ ایسے وقت میں ہو رہا ہے، جب فلسطین پر اسرائیلی مظالم جاری ہیں اور لاکھوں لوگوں کی جان خطرے میں ہے۔ انڈونیشیا جیسا ملک اس موقع پر بھی سودے بازی کر رہا ہے۔ اس کے ذریعے اپنے مالی مفادات کا تحفظ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ایسے ممالک سے تو وہ غیر مسلم ممالک اچھے ہیں، جو اہل فلسطین کے لیے مسلسل آواز اٹھا رہے ہیں۔ نیکاراگوئہ شائد آپ یہ نام ہی پہلی بار پڑھ رہے ہوں، یہ ایک ملک کا نام ہے۔ اس نے جرمنی کے خلاف غزّہ میں نسل کُشی میں ملوث ہونے کا مقدمہ عالمی عدالت انصاف میں دائر کرنے کے بعد برلن میں اپنا سفارت خانہ بند کر دیا۔ انہوں نے کہا ہے کہ ہم ایسے ملک کے ساتھ تعلقات نہیں رکھ سکتے، جو فلسطینیوں کی نسل کشی کے لیے ہتھیار فراہم کر رہا ہے۔ اسی طرح بین الاقوامی عدالت انصاف میں جرمنی کو گھسیٹ لایا ہے۔