روزے کے تربیتی اثرات
روزہ کے مختلف ابعاد پائے جاتے ہیں ، مادی اور معنوی لحاظ سے انسان کے وجود میں بہت زیادہ موثر ثابت ہوتا ہے جن میں سب سے اہم پہلو ، »اخلاقی پہلو» اور اس کی تربیت کا فلسفہ ہے ۔
روزہ کا اہم فائدہ یہ ہے کہ روزہ انسان کی روح کو »لطیف » ، اس کے ارادہ کو قوی اور اس کے غرائز کو معتدل کرتا ہے ۔ روزہ دار کے لئے ضروری ہے کہ وہ روزہ کی حالت میں کھانے اور پانی کی بھوک اور پیاس کے باوجود جنسی لذتوں کو بھی نظر انداز کرے اور عملی طور پر ثابت کرے کہ وہ جانوروں کی طرح اصطبل اور گھانس کے پیچھے نہیں ہے ، وہ سرکش نفس کی زمام کو اپنے ہاتھ میں لے سکتا ہے اور اپنی ہوش اور شہوت پر مسلط ہوسکتا ہے ۔
حقیقت میں روزہ کا سب سے بڑا فلسفہ یہی روحانی اور معنوی اثر ہے ، جس انسان کے اختیار میں مختلف قسم کے کھانے اور پینے کی چیزیں ہوں اور وہ ان کو بھوک اور پیاس کی حالت میں استعمال کرسکتا ہو وہ انسان ان درختوں کی طرح ہیں جو باغ کی دیواروںکی پناہ میں نہر کے کنارے اُگ جاتے ہیں ، نازوں کے پلے ہوئے ان درختوں میں مقاومت کرنے کی طاقت بہت کم ہوتی ہے ، اگر کسی دن ان کے نیچے پانی نہ ہو تو پژمردہ اورخشک ہوجاتے ہیں ۔
لیکن جو درخت پہاڑوں اور بیابانوں کے درمیان اُگتے ہیں اور ان کی شاخوں کو ابتداء ہی سے سخت طوفان، جلتی دھوپ اور سردیوں میں سردی کا سامنا کرنا پرتا ہے اور مختلف قسم کی محرومیت ان کے شامل حال ہے ، ایسے درخت محکم ، ہمیشہ قائم رہنے والے ، مقاوم اور سخت جان ہیں !
روزہ بھی انسان کی جان و روح کے ذریعہ اسی عمل کو انجام دیتی ہے اور وقتی محدودیت کے ساتھ انسان کو مقاومت ، ارادہ کی طاقت اور سخت حوادث سے جنگ کرنے کی طاقت عطا کرتا ہے اور جب وہ اپنے سرکش غرائز کو کنٹرول کرتا ہے تو انسان کے قلب کو نور اور صفا عطا کرتا ہے ۔
خلاصہ یہ ہے کہ روزہ انسان کو حیوانیت سے نکال کر فرشتوں کی دنیا میں لے جاتا ہے ،جملہ »لعلکم تتقون » ، انہی حقائق کی طرف اشارہ ہے ۔
نیز مشہور حدیث »الصوم جنة من النار » (روزہ آتش جہنم کی سامنے ڈھال ہے ) اسی موضوع کی طرف اشارہ کررہی ہے ۔
ایک دوسری حدیث میں امام علی (علیہ السلام) سے نقل ہوا ہے : پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے پوچھا گیا : ہم شیطان کو اپنے آپ سے دور کرنے کے لئے کیا کریں ؟ فرمایا : » الصوم یسود وجھہ والصدقة تکسر ظھرہ ، والحب فی اللہ والمواظبة علی العمل الصالح یقطع دابرہ والاستغفار یقطع و تینہ » ۔
روزہ ، شیطان کے چہرہ کو سیاہ کرتا ہے ،خدا کی راہ میں انفاق کرنے سے اس کی کمر ٹوٹ جاتی ہے ، خدا کی وجہ سے کسی سے دوستی کرنے اور عمل صالح پر پابند رہنے سے اس کی امید ٹوٹ جاتی ہے اور استغفار اس کے دل کی رگ کو کاٹ دیتی ہے !
نہج البلاغہ میں جس وقت امیرالمومنین علی (علیہ السلام) عبادت کے فلسفہ کو بیان کرتے ہیں اور روزہ تک پہنچتے ہیں تواس طرح فرماتے ہیں : ... والصیام ابتلاء لاخلاص الخلق » ۔ خداوند عالم نے روزہ کولوگوں میں روح اخلاص کی پرورش کے لئے واجب کیا ہے !
نیز پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے ایک دوسری حدیث میں فرمایا ہے : » ان للجنة بابا یدعی الریان لا بدخل فیھا الا الصائمون » ۔ بہشت کے ایک دروازہ کا نام »ریان» (سیراب شدہ) ہے ، اس دروازہ سے صرف روزہ دار داخل ہوں گے ۔
مرحوم صدوق نے »معانی الاخبار» میں اس حدیث کی شرح میں لکھا ہے : بہشت کے دروازہ کا یہ نام اس وجہ سے انتخاب کیا گیا ہے کہ روزہ دار کو سب سے زیادہ زحمت پیاس کی ہوتی ہے ، جس وقت روزہ دار اس دروازہ سے داخل ہوں گے تواس طرح سیراب ہوجائیں گے کہ اس کے بعد ان کو کبھی پیاس نہیں لگے گی ۔