حضرت آدم (علیہ السلام) سے لے کر حضرت خاتم ﷺ تک تمام انبیاء اور تمام اولی العزم نبیّوں کہ جو ہمیشہ لوگوں کے درمیان رہے، کی آمد کا مقصد یہی تھا کہ توحید وعدالت کے پرچم کو اقوام کے درمیان لہرائیں ۔ پوری تاریخ میں آپ کو کوئی نبی بھی ایسا نہیں ملے گا کہ جس نے بیٹھ کر صرف نصیحت کی ہو، بلکہ وہ لوگوں کی تہذیب نفس، اخلاق، گفتار، کردار، عمل اور ان کی فعالیت کی نسبت مامور کے گئے تھے اور خداوند عالم نے انہیں اسی لیے مبعوث کیا تھا کہ وہ انسانوں کی تعمیر کریں ، ان میں انسانی صفات کو اجاگر کریں اور وہ صحیح انسانی افعال واعمال کے مالک بنیں ۔ چنانچہ وہ جس حال میں بھی تھے اسی مقصد کیلئے کوشش کرتے رہے ہیں ۔
رسول اکرمﷺ کے بارے میں قرآن یہ کہتا ہے کہ {ہُوَ الَّذِيْ بَعَثَ في الأمِّیِّینَ رَسُولاً مِنْہُمْ یَتْلُو عَلَیْہِمْ آیٰاتِہِ وَیُزَکِّیہِمْ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتٰابَ وَالْحِکْمَۃَ۔۔۔} (سورۂ جمعہ، آیت؍ ۲) خداوند عالم اس آیت میں رسول اکرم ؐ کی بعثت کے مقصد اور انگیزہ کو بیان فرما رہا ہے کہ خداوند عالم نے ان امّی اور اَن پڑھ افراد اور وہ افراد جو خدائی تربیت وتعلیم سے بہرہ مند نہیں تھے کے درمیان ایک رسول ؐ بھیجا ہے تاکہ آیات الٰہی کو ان کے سامنے پڑھے اور انہیں آیات قرآنی کی قرائت اور خدائی تربیت کی طرف دعوت دے کہ جس کے زیر سایہ خود اس نے پرورش پائی، ان کا تزکیہ کرے اور انہیں کتاب وحکمت کی تعلیم دے۔ اس آیۂ شریفہ میں معلّم کی تربیت، تعلیم دینے اور تعلیم حاصل کرنے کی اہمیت کے بارے میں بہت سے نکات موجود ہیں {ہُوَ الَّذِي} کی تعبیر، یعنی وہی ہے کہ جس نے اس کام کو انجام دیا ہے۔ گویا یہ ایک ایسا اہم مطلب ہے کہ جسے خدا نے {ہُوَ الَّذِي بَعَثَ} سے تعبیر کیا ہے، یعنی وہی ہے کہ جس نے لوگوں کے درمیان بھیجا ہے اور تمام عالم امّی اور اَن پڑھ ہے یہاں تک کہ وہ افراد کہ جنہوں نے ظاہراً تعلیم حاصل کی ہے اور صنعت وحرفت سے وابستہ اور اس سے متعلق تمام امور سے با خبر ہیں ۔ لیکن یہ تمام افراد خدا کی طرف سے انبیاء ورسل (علیہ السلام) کے توسط سے بھیجی جانے والی تربیت کے مقابلے میں امّی (ان پڑھ) ہیں اور ضلال مبین میں ہیں ۔
تعلیم و تربیت کی واحد راہ، وہ راہ ہے کہ جو وحی اور تمام عالمین کے مربی اور حق تعالیٰ جل جلالہ کی طرف سے معین کی گئی ہے۔ یہ راہ اس تہذیب نفس کے راستے سے طے کی جاتی ہے کہ جس کے سائے میں لوگ انبیاء کے ذریعہ بھیجی جانے والی تربیت سے خود کو آراستہ کرتے ہیں ، یہ راہ اس علم کے ذریعہ شناخت کی جاتی ہے کہ جو انبیاء کے توسط سے بشر کے سامنے پیش کیا جاتا ہے اور جو انسان کو اس کے کمال مطلوب تک پہنچاتا ہے۔
(صحیفہ امام، ج ۱۳، ص ۵۰۳)