تحریر: راضیہ لواف
انقلاب اسلامی ایران کا آغاز مئی 1963ء میں ہوا۔ 1963ء میں روز عاشورہ امام خمینی رحمہ اللہ علیہ نے مدرسہ فیضیہ میں شاہ کی حکومت کے خلاف تقریر کی اور اسے شدید تنقید کا نشانہ بنایا جس کے باعث اسی رات انہیں گرفتار کر لیا گیا۔ شاہ حکومت کا یہ اقدام 5 جون 1963ء کے دن رونما ہونے والے واقعات کا باعث بنا جن میں ایران کے بعض شہروں میں عوام امام خمینی رح کے حق میں سڑکوں پر نکل آئے اور سکیورٹی اہلکاروں کے ساتھ جھڑپیں ہوئیں جس کے نتیجے میں ورامن سمیت کچھ شہروں میں مظاہرین شہید کر دیے گئے۔ امام خمینی رح نے جب حکومت کی جانب سے پیش کردہ کیپٹلائزیشن بل پر دوبارہ اعتراض کیا تو انہیں 4 دسمبر 1963ء کے دن دوبارہ گرفتار کر کے پہلے نجف اور اس کے بعد ترکی جلاوطن کر دیا گیا۔
اس کے بعد عوام کھلم کھلا سلطنتی نظام کے مقابلے میں آ کھڑے ہوئے۔ 7 جنوری 1978ء کے دن ایرانی اخبار "اطلاعات" میں ایک مضمون شائع ہوا جس میں امام خمینی رح کی شان میں گستاخی کی گئی۔ اس واقعہ نے احتجاجی تحریکوں میں مزید شدت پیدا کر دی۔ دو دن بعد یعنی 9 جنوری 1978ء کے دن قم میں ایک احتجاجی مظاہرے پر سکیورٹی فروسز نے فائرنگ کر دی اور بڑے پیمانے پر افراد شہید ہو گئے۔ اس کے بعد احتجاجی مظاہرے پورے ملک میں پھیل گئے۔ جب عوامی احتجاج کی شدت حد سے زیادہ بڑھی تو محمد رضا پہلوی 16 جنوری 1978ء کے دن ملک چھوڑ کر چلے جانے پر مجبور ہو گیا۔ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ عراقی بعث حکومت کے دباؤ پر پیرس کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے اور نوفل لوشاتو میں رہائش پذیر ہو گئے۔
انہوں نے اپنے انٹرویوز اور پیغامات کے ذریعے انقلاب کی قیادت جاری رکھی اور آخرکار یکم فروری 1979ء کے دن وطن واپس آ گئے۔ عالمی سامراج نے اسلامی انقلاب کی کامیابی روکنے کی بہت کوشش کی لیکن امام خمینی رح کی جدوجہد اور 12 فروری 1979ء کے دن بڑے پیمانے پر مومن عوام کا میدان میں حاضر ہو جانے کے نتیجے میں انقلاب اسلامی ایران فتحیاب ہوا۔ اس کے فوراً بعد ملکی سطح پر منعقد ہونے والے ریفرنڈم میں 98 فیصد عوام نے حصہ لے کر اسلامی جمہوریہ کے حق میں ووٹ دیا۔ لیکن امریکہ، جو ایران میں اپنے بہت سے مفادات کھو بیٹھا تھا، نے اسلامی انقلاب کے خلاف مختلف قسم کی سازشوں کا سلسلہ شروع کر دیا۔ ترکمن پیپلز پارٹی کا فتنہ، کردستان میں فسادات، نقاب بغاوت کا منصوبہ اور آخر کار عراق کو اکسا کر ایران کے خلاف آٹھ سالہ جنگ کا آغاز اس کی کچھ مثالیں ہیں۔
ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی بیسویں صدی کے تاریخی اور اہم واقعات میں سے ایک تھا جو نہ صرف ایران بلکہ پورے خطے اور دنیا میں گہری تبدیلیاں رونما ہونے کا باعث بن گیا۔ انقلاب اسلامی ایران نے اسلامی سوچ اور تفکر کو زندہ کر کے اور مختلف سماجی اور سیاسی شعبوں میں اسلام اور مسلمانوں کے کردار کو اجاگر کر کے دیگر اسلامی اقوام اور تحریکوں کیلئے ایک بہترین مثال قائم کر دی۔ اسلامی انقلاب نے "نہ مشرق نہ مغرب"، استکبار دشمنی، مستضعفین کی حمایت اور اسلامی وحدت جیسے نعروں کے ذریعے خطے کے عوام کو ایسے تصورات اور اقدار کا درس دیا جن کے نتیجے میں انہوں نے اپنی آزادی، انصاف اور وقار کیلئے جدوجہد شروع کر دی اور عالمی سامراجی اور ظالم طاقتوں کا مقابلہ کرنے لگے۔
یہ اسلامی انقلاب ایرانی علماء اور عوام کی جانب سے حکومت کی دین مخالف پالیسیوں کے خلاف برسوں کی جدوجہد کا نتیجہ تھا۔ ایران کا اسلامی انقلاب ایک عظیم اور دیرپا انقلاب ہے جس کے نہ صرف ایران بلکہ پوری اسلامی دنیا اور بین الاقوامی سطح پر بھی گہرے اور وسیع اثرات ظاہر ہوئے ہیں اور یہ اثرات بدستور جاری ہیں۔ اس انقلاب نے اسلامی حکومت کا ایک نیا ماڈل پیش کر کے اور حقیقی محمدی ص اسلام کا بول بالا کر کے دنیا بھر کے مستضعفین، مظلوموں اور مسلمانوں میں جدوجہد اور آزادی کی امید زندہ کر دی۔ مزیدبرآں، امریکہ کی سربراہی میں عالمی استکبار، صیہونیت اور دہشت گردی کے خلاف اسلامی مزاحمتی بلاک تشکیل دے کر خطے اور دنیا میں امن، سلامتی اور انصاف کے قیام میں اہم اور موثر کردار ادا کیا ہے۔
اسلامی جمہوریہ ایران نے لبنان، فلسطین، عراق، شام اور یمن میں اسلامی مزاحمتی تحریکوں کی حمایت کے ذریعے مستضعف اور مظلوم قوموں کے حقوق کا دفاع کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ لہذا یہ کہنا بجا ہو گا کہ اسلامی انقلاب کی کامیابی ایران کو ایک علاقائی اور عالمی طاقت میں تبدیل کرنے کا اہم اور موثر سبب بنا جس کے نتیجے میں ایران اور خطے کے سیاسی، سماجی، ثقافتی اور اقتصادی ڈھانچے میں گہری تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ خطے اور دنیا میں ایران کی طاقت اور اثرورسوخ میں اضافہ ہوا اور اسلامی جمہوریہ ایران دنیا بھر میں اسلامی تجربے اور مزاحمت کی کامیاب مثال کے طور پر متعارف ہونے لگا۔ اس کے ساتھ ساتھ ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے نتیجے میں دنیا بھر میں استکبار مخالف تحریکوں کو قوت ملی اور عالمی استکباری ورلڈ آرڈر متزلزل ہوا اور آج دنیا ایک نئے ورلڈ آرڈر کی جانب گامزن ہے۔