مسلمانوں  کے سربراہوں  کا مسلمانوں  کے خلاف پروپیگنڈہ

مسلمانوں کے سربراہوں کا مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈہ

ہم فریاد لگاتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں اور اس ملک میں قرآن کریم اور رسول اکرم (ص) کے احکامات کو جاری کرنا چاہتے ہیں

مسلمانوں  کو کیا ہوگیا ہے، مسلمانوں  کے سربراہوں  کو کیا ہوگیا ہے کہ انہوں  نے اپنی تمام حیثیت وآبرو امریکہ پر نثار کر دی ہے؟ ان لوگوں  کو کیا ہوگیا ہے کہ عظیم اسلامی ذخیروں  کو جو کمزور اور پا برہنہ قوموں  کا مال ہے امریکہ کو پیش کردیتے ہیں  اور امریکہ اس پیشکش کے مقابلے میں  اسرائیل کی حمایت کرتا ہے اور کہتا ہے کہ ہم اسرائیل کو ان کے عوض نہیں  بیچیں گے۔ مسلمانوں  کو کیا ہوگیا ہے؟ مسلمان آخر ایسے کیوں  ہوں ؟ مسلمانوں  کے پروپیگنڈے، مسلمانوں  کے اس گروہ کے خلاف کیوں  ہیں  جو بیرونی تسلط اور بین الاقوامی چوروں  سے اپنے آپ کو نجات دلانا چاہتا ہے؟ کیا ہوگیا ہے کہ (یہ لوگ) ایران کے مقابلے میں  محاذ قائم کرتے ہیں ؟ آخر ایران کا کیا قصور ہے؟ کیا ہوا ہے کہ بعض درباری ملاّ ایران پر کفر کا فتویٰ لگاتے ہیں ؟ قرآن صاف کہتا ہے کہ اگر کوئی اسلام کا دعویٰ کرے تو اسے مسلمان سمجھو، اس کی بات مان لو، اسے ٹھکراؤ مت۔ بھلا ان لوگوں  کو اسلام کی کیا خبر؟

ہم فریاد لگاتے ہیں  کہ ہم مسلمان ہیں  اور اس ملک میں  قرآن کریم اور رسول اکرم(ص)  کے احکامات کو جاری کرنا چاہتے ہیں ۔ بیس سال سے زائد عرصے سے ہم اسرائیل اور امریکہ کے ساتھ اپنی مخالفت کا اعلان کرچکے ہیں ، لیکن اس کے باوجود یہ جریدوں  اور روزناموں  کے قلمکار اور مختلف ریڈیو والے ہم پہ اسرائیل کے ساتھ دوستی کا الزام لگاتے ہیں ۔ اسرائیل سے ہماری دوستی ہے یا ان لوگوں  کی جو دیکھتے ہیں  اور مشاہدہ کرتے ہیں  کہ اسرائیل مسلمانوں  کے ساتھ کیا سلوک کررہا ہے؟ اسرائیل نے لبنان کو کس حالت میں  بدل کر رکھ دیا ہے؟ اسرائیل شام کے ساتھ کیا کررہا ہے؟ جولان کی بلندیوں  کو اپنے ملک کے ساتھ ملا لیا ہے اس کی آرزو تو اس سے کہیں  زیادہ ہے۔

لیکن آپ کہتے ہیں  کہ ہم اسے تسلیم کرنا چاہتے ہیں ! (کیا) ہماری اس کے ساتھ دوستی ہے جو بیس سال سے زائد عرصے سے چلا رہے ہیں  کہ آپس میں  جمع ہو کر مسلمانوں  کے درمیان سے اس کینسر کی غدود کو نکال باہر کریں ۔ بیت المقدس کو اس سے لے لیں ۔ اسلامی ممالک کو اس کینسر کی غدود سے آزاد کرائیں  یا آپ لوگوں  کی اسرائیل کے ساتھ دوستی ہے جو مختلف بہانوں  سے اسے (قانونی حیثیت سے) تسلیم کرنے کے درپے ہیں ؟ اسلام کے مقابلے میں  ایک ایسے ملک کی حمایت کرنا چاہتے ہیں  جس کا ظلم پوری دنیا پہ واضح ہے۔ آپ لوگ جسارت کے ساتھ خدا کے مقابلے میں  کھڑے ہیں  اور خدا اور مسلمانوں  کے سخت ترین دشمن کو مسلط کرنا چاہتے ہیں ۔ اسے سکون دینا چاہتے ہیں ، اسے قانونی طورپر تسلیم کرنا چاہتے ہیں ۔ آپ بے شک اسرائیل کو تسلیم کرلیں  (لیکن) وہ آپ کو تسلیم نہیں  کرتا اور آپ اس انتظار میں  بیٹھے ہیں  کہ خدانخواستہ اسرائیل آپ سب پہ حکومت کرے۔

(صحیفہ امام، ج ۱۶، ص ۳۶)

ای میل کریں