تحریر: امیر سواگ
فضیلت کے معیار دو طرح کے ہیں۔ فضیلت عطائی اور فضیلت اکتسابی۔ فضیلت عطائی وہ فضلیت و شان ہے، جو خداوند متعال کی طرف سے بچپن میں ملتی ہے، نسبت، نام، خاندان وغیرہ۔۔۔۔ سیدہ زہراء کا نسب اور جناب فاطمہ زہراء کا اسم گرامی یہ سب فضلیت عطائی میں شامل ہیں۔ فضلیت اکستابی فاطمہ سلام اللہ علیہا خاتم الانبیاء محمد مصطفیٰ(ص) کی دختر تمام دنیا والوں کے لئے لاہوت میں احادیت، جادواں خزانہ، عالم جبروت کے مظاہر، رحمن کی رحمت کا خزانہ اور خدائے ُسبحان کی رحمت و مہربانی کا سرچشمہ ہیں۔ زہراء سلام اللہ علیہا کی والدہ ماجدہ خدیجہ بنت خویلد قریش کے ایک اعلیٰ اور شریف و نجیب خاندان سے تعلق رکھتی ہیں۔ اُنہوں نے ایک روحانی گھرانے میں علم معرفت کی تربیت حاصل کی اور پرورش پائی۔
ان کا گھرانہ ہمیشہ حرم الہیٰ کا محافظ رہا۔ جب یمن کے بادشاہ نے حجر اسود کو مسجد الحرام سے یمن منتقل کرنا چاہا تو خدیجہؑ کے والد خویلد دفاع کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے اور مزاحمت کی اور انہی کی فدا کاری کے باعث شاہ یمن نے اپنا فیصلہ بدل دیا اور حجر اسود اپنے مقام پر باقی رہا۔ عقل فاطمہ ؑ کی ذات کی حقیقی معرفت سے عاجز، قلم اس عظیم خاتون کی حالت اور صفات کمال تحریر کرنے سے قاصر ہیں۔ کیونکہ زہرا ؑ قادر متعال کی برگزیدہ اور حضرات ذی الجلال کی پروردہ اور فرشتہ سیرت، انسان کی صورت میں عالم ملکوت سے دنیا کی عورتوں کی تعلیم و تربیت کے لئے جہان خاکی میں تشریف لائیں، تاکہ دنیا کی عورتیں اس عظیم خاتون کے روحانی، اخلاقی اور علمی کمالات سے درس کمال حاصل کریں اور زندگی کے تمام دینوی اور اخری امور اور بچوں کی تعلیم تربیت میں اس بے نظیر معلمہ کی اقتداء کریں۔
اس عظیم خاتون کے فضائل و کمالات کس طرح بیان کئے جا سکتے ہیں، جو نبوت اور امامت کے اکٹھا ہونے کا مقام، رسالت و ولایت کا سنگم اور دنیا کے فنا ہونے تک شموس ہدایت کا ظاہر ہونے کا مقام ہے۔ اسی طرح خانہ داری میں بھی جناب زہرا ؑ کا کوئی ثانی نہیں، کیونکہ اسلام میں ہر خانہ دار عورت کی تین بھاری ذمہ داریاں ہیں۔
۱۔ شوہر کی خدمت اور اس کے آرام و آسائش کا خیال رکھنا، وہ جب گھر آئے، یہ عورت کا جہاد ہے۔
۲۔ حمل کے زمانے سے لیکر بچوں کے بالغ ہونے تک ان کی خدمت اور تربیت کرنا کہ یہ بھی خدا کی رضا کی راہ میں بہترین عبادت ہے۔
۳۔ خدا کی عبادت اور اطاعت، عورت کا جہاد شوہر کے ساتھ اچھا سلوک اور برتاؤ ہے اور بات کے باوجود کہ یہ فضائل جناب زہراؑ میں کامل ترین شکل میں موجود تھے، پھر بھی تاکید کی گئی ہے۔
گھر کے کاموں کی تقسیم اس طرح تھی کہ علی علیہ اسلام ایندھن، پانی اور دوسرے کام باہر کے کرتے اور جناب فاطمہ ؑ آٹا پیستی، روٹی پکاتیں اور کپڑوں کو پیوند لگاتیں تھیں۔ جناب فاطمہ ؑاپنے گھر کے کاموں کے باوجود بچوں کی تربیت، شوہر کی خدمت اور دیگر کاموں کی بھی دیکھ بھال کرتی تھیں اور دنیا کے تمام عابدوں سے زیادہ اپنے پروردگار کی عبادت کرتی تھیں۔ جیسا کہ حسن بصری سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا اس امت میں فاطمہ ؑ سے زیادہ عبادت گزار کوئی نہیں دیکھا، وہ محراب عبادت میں اتنا کھڑی ہوتیں تھیں کہ ان کے دونوں پاوں ورم کر جاتے تھے۔ حضرت امام حسن علیہ اسلام فرماتے ہیں کہ میری ماں زہراؑ اول شب جمعہ سے عبادت میں مشغول ہوتی تھیں اور صبح تک عبادت میں مصروف رہتی تھیں اور ہمیشہ دوسروں کے لئے دعا کرتیں تھیں۔ میں نے کہا اماں جان آپ نے دوسروں کے لئے دعا کی، لیکن اپنے لئے کوئی دعا نہیں کی تو فرمایا پہلے ہمسائے پھر گھر والے۔