نومبر کی 7 تاریخ، صبح سویرے، طلوع فجر سے قبل، اچانک اسرائیل میں کہرام مچا کہ حماس کے مجاہدوں نے حملہ کر دیا ہے۔ یہ حملہ اتنا اچانک اور اتنا زور دار تھا کہ اسرائیلی فوج کے اعلیٰ حکام، انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ذمہ داران اور اسرائیلی حکمران چکرا کر رہ گئے۔ حماس کی القسام بریگیڈ نے منفرد انداز میں یہ کارروائی کرکے پوری دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔ جواب میں اسرائیل نے بھی کارروائی کی۔ غزہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دی، تمام تاریخی عمارتیں تباہ کر دیں، لائبریریز، میوزیم، ہسپتال اور سکولوں کو بھی نشانہ بنایا گیا اور یہ حملے ہنوز جاری ہیں۔ اسرائیلی نے اپنی جارحیت میں جنگی جرائم کا ارتکاب کیا، جنگی قوانین کو پامال کرکے رکھ دیا۔ پوری دنیا اسرائیل کی اس جارحیت کیخلاف سراپا احتجاج ہے۔ پوری دنیا میں حتیٰ یورپ میں بھی مظاہرے کئے جا رہے ہیں اور غیرت مند انسان اسرائیلی جارحیت کی مذمت کر رہے ہیں۔
حماس نے حملہ کیوں کیا؟ یہاں ایک انکشاف ہوا ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ ہے کہ حماس نے اچانک حملہ اس لئے کیا، کیونکہ اسرائیل نے حماس، ایران، حزب اللہ اور یمن پر حملے کا منصوبہ تیار کر رکھا تھا۔ ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ حملے 8 نومبر کو صبح 3 بجے شروع ہونا تھے اور بیک وقت چاروں محاذوں کو نشانہ بنایا جانا تھا۔ ایران کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کو اسرائیل کی اس پلاننگ کی بھنک پڑ گئی اور ایران نے دیگر ممالک کی ایجنسیوں کیساتھ انٹیلی جنس شیئرنگ کرکے اسرائیل کے حملے کی منصوبہ بندی کو ملیا میٹ کرکے رکھ دیا۔ یوں حماس کو فوری حملے کی ہدایات ملیں اور القسام بریگیڈ نے وہ کر دکھایا، جس کا دنیا نے سوچا بھی نہیں تھا۔ اس کے علاوہ معتبر ترین ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ اسرائیل 8 نومبر کو حماس کو اس لئے نشانہ بنانا چاہتا تھا، کیونکہ غزہ میں تیل اور گیس کا بہت بڑا ذخیرہ زیر زمین موجود ہے۔
ذرائع یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ تیل اور گیس اتنی زیادہ ہے کہ مغرب اگر عربوں سے تیل اور گیس نہ بھی خریدے تو صرف اس غزہ کے ذخیرے سے ہی اپنی ضروریات پوری کرسکتا ہے۔ اس لئے اسرائیل نے امریکہ اور برطانیہ کے تعاون سے یہ پلان تشکیل دیا تھا کہ حماس پر حملہ کرکے غزہ پر قبضہ کر لیا جائے گا اور یوں تیل اور گیس کے ذخیرے پر قبضہ کرنا اس مکروہ منصوبے کا حصہ تھا، لیکن اللہ نے اپنی حکمت سے اسرائیل کے اس ناپاک منصوبے کو ملیا میٹ کر دیا پاکستان میں اسرائیل نواز کچھ صحافی حماس کی اس کارروائی کو فلسطینیوں کیخلاف سازش قرار دینے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں کہ حماس نے حماقت کی ہے اور اپنا نقصان کیا ہے، لیکن یہ "اسرائیلئے" یہ نہیں بتا رہے کہ اسرائیل کا کتنا نقصان ہوا ہے۔
خود اسرائیل نے اعتراف کیا ہے کہ چار سو پچیس سے زائد اسرائیلی فوجی ہلاک اور ہزاروں کی تعداد میں زخمی ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی جنگی ساز و سامان کی تباہی الگ ہے، جس میں اسرائیلی کے درجنوں ٹینکس تباہ ہوئے ہیں۔ اسرائیل نے اس حوالے سے ایک اور کمینگی کا مظاہرہ کیا، وہ یہ کہ فلسطینی عوام کو پیشکش کی کہ جو غزہ سے نکلنا چاہتے ہیں، وہ ہجرت کرکے خان یونس یا جنوبی غزہ چلے جائیں، ان کو کچھ نہیں کہا جائے گا، جب فلسطین کے نہتے عوام اپنے بچوں کے ہمراہ خان یونس اور جنوبی غزہ گئے، تو انہیں بھی بمباری کا نشانہ بنا دیا گیا۔ اب امریکہ اور برطانیہ کھل کر سامنے آگئے ہیں اور یہ واضح ہوچکا ہے کہ اسرائیل تنہا نہیں، بلکہ امریکہ اور برطانیہ کی مدد سے ہی اس جارحیت کا ارتکاب کر رہا ہے۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اسرائیلی جنگ بندی کیلئے یو اے ای کی قرارداد کو امریکہ نے ویٹو کر دیا۔ جس سے اس کا مکروہ چہرہ بے نقاب ہوگیا۔ اس کے علاوہ چین نے سی پیک کے حوالے سے اپنی پالیسی تبدیل کر لی ہے۔ چین نے سی پیک کا روٹ تبدیل کر دیا ہے۔ عمران خان کے دور حکومت میں سی پیک پر کام روک دیا گیا تھا، جس کے باعث چین کو اس حوالے سے کافی پریشانی بھی ہوئی، اسے توقع نہیں تھی کہ پاکستان امریکی دباو میں آ کر اس معاہدے سے مکر جائے گا۔ اب چین نے خنجراب کا روٹ تبدیل کرکے واخان کے راستے سی پیک کو افغانستان منتقل کر دیا ہے۔ افغانستان میں لیتھیم کے ذخائر پر بھی چین کی نظر ہے، یہی وجہ ہے کہ چین وہ پہلا ملک ہے، جس نے افغانستان کو تسلیم کرتے ہوئے اس کیساتھ سفارتی تعلقات قائم کر لئے ہیں اور کابل میں اپنا سفارتخانہ کھول لیا ہے۔
افغانستان نے بھی بیجنگ میں اپنا سفیر نامزد کر دیا ہے۔ اب یہ سی پیک کا روٹ افغانستان سے ایران اور سوویت یونین کے سابق ریاستوں سے گزارتا ہوں یورپ جائے گا۔ اس روٹ میں فلسطین اور سعودی عرب کو بھی شامل کیا گیا ہے، اسرائیل کو اس کا بھی دکھ ہے کہ فلسطین اگر اس روٹ کو ٹیچ کرتا ہے تو اس سے فلسطین کی معیشت میں بہتری آسکتی ہے۔ تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ حماس جہاں خطے کو امریکی تسلط سے بچانے کی جنگ لڑ رہی ہے، وہیں یہ سی پیک کا دفاع بھی کر رہی ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ جنگ پاکستان سمیت خطے کے ممالک کے دفاع کی جنگ ہے۔ ہمیں حماس کی اس جنگ میں حمایت کرنی چاہیئے، نہ کہ امریکی دباو میں ہم اپنے مسلمان بھائیوں کو موت کی وادی میں دھکیل کر یہ سمجھ لیں کہ ہم محفوظ رہیں گے۔