غزہ کی عوام کے صبر و استقامت نے غاصب جعلی ریاست اور اس کے مستکبر حامیوں کی عزت و آبرو کو خاک میں ملا دیا ہے،
رہبر انقلاب اسلامی امام سید علی خامنہ ای (دام ظلہ العالی) نے ـ [یکم نومبر، یوم جدوجہد استکبار کے خلاف (یا یوم مردہ باد امریکہ) کی آمد پر] اسکولوں اور جامعات کے طلباء سے خطاب کرتے ہوئے ملت ایران سے امریکہ کی دشمنی کے اسباب و عوال پر روشنی ڈالی اور غزہ میں امریکہ اور صہیونی ریاست کے المناک جرائم کو بے مثل قرار دیا اور فرمایا کہ غزہ کے عوام کے صبر و استقامت نے غاصب جعلی ریاست اور اس کے مستکبر حامیوں کی عزت و آبرو کو خاک میں ملا دیا ہے، اور اگر امریکہ کی ہمہ جہت امداد و حمایت نہ ہو تو صہیونی ریاست صرف چند ہی دن میں مفلوج ہو کر رہ جائے گی۔ عالم اسلام کو بھی صہیونی ریاست کے ساتھ معاشی تعاون ختم کرکے اس ریاست کے خلاف مل کر اقدام کرنا چاہئے اور پوری قوت سے "غزہ پر بمباری اور صہیونی جرائم" کے خاتمے پر اصرار کرکے، حق و باطل کی اس جنگ میں، اپنے فرائض پر عمل درامد کریں۔
امام خامنہ ای (دام ظلہ العالی) نے فرمایا: صہیونی امریکی مدد و حمایت کے سہارے قائم ہے، اور اگر امریکی حمایت اور عسکری پشت پناہی نہ ہوتی تو بدعنوان، جعلی اور جھوٹی صہیونی ریاست [طوفان الاقصٰی کے] پہلے ہفتے میں ہی چوپٹ ہو جاتی؛ چنانچہ غزہ میں آج صہیونیوں کی المیہ آفرینی امریکہ کی مدد ہی سے نہیں بلکہ امریکیوں کے ہاتھوں سے ہو رہی ہے۔
رہبر انقلاب نے فرمایا: صرف تین ہفتوں کے قلیل عرصے میں 4000 فلسطینی بچوں کے قتل عام کا جرم عظیم تاریخ میں پہلی بار سامنے آیا ہے، چنانچہ امت مسلمہ کو غزہ کے واقعات کے حوالے سے ہوشیار ہونا چاہئے جو درحقیقت "حق و باطل" اور "ایمان اور استکبار" کے درمیان کے معرکے کا میدان ہے۔ استکبار کی طاقت بم، فوجی دباؤ، المیوں اور جرائم کے ذریعے ظاہر ہوتی ہے لیکن ایمان کی قوت اللہ کی توفیق سے ان سب پر غلبہ پائے گی۔
آپ نے غزہ کے عوام کے صبر و استقامت کے اثرات و ثمرات بیان کرتے ہوئے فرمایا: ہمارے دل فلسطینی عوام کے مصائب کی وجہ سے خون ہو چکے ہیں لیکن جب میدان پر گہری نظر ڈالی جائے تو اس معرکے کے فاتح غزہ اور فلسطین کے عوام ہیں جو کارہائے عظیم انجام دینے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔
رہبر انقلاب نے فرمایا: غزہ کے عوام نے امریکہ، برطانیہ، فرانس، اور اس طرح کے ممالک کے چہروں سے انسانی حقوق کا جھوٹا نقاب اتر چکا ہے اور مغربی طاقتیں رسوا ہو چکی ہیں اور یہ سب غزہ کے عوام کے صبر و استقامت اور ان ہتھیار نہ ڈالنے کے آثار و نتائج ہیں؛ غزہ کے عوام نے اپنے صبر کے ذریعے سے بنی نوع انسان کا ضمیر جھنجھوڑ کر بیدار کر دیا۔ اور آج ان ہی مغربی ممالک میں، برطانیہ میں، فرانس، میں اٹلی میں اور امریکہ کی مختلف ریاستوں میں، بڑی تعداد میں عوام، سڑکوں پر آتے ہیں اور اسرائیل کے خلاف، اور بہت سے مواقع پر امریکہ کے خلاف نعرے لگاتے ہیں؛ ان کی عزت و آبرو خاک میں مل گئی۔ ان کے پاس کوئی راہ علاج نہیں ہے، اور اس صورت حال کے سلسلے میں وہ کوئی جواز پیش کرنے سے عاجز ہیں۔ چنانچہ آپ دیکھتے ہیں کہ کوئی نادان شخص اٹھ کر کہہ دیتا ہے کہ "برطانیہ میں عوام کا اجتماع ایران کا کام ہے"، تو کیا یہ کام "لندن کی بسیح [انقلابی رضاکار فورس]" ہے جس نے یہ کام کیا ہے؟ کیا یہ کام پیرس کی بسیج نے کیا ہے؟ ان دنوں مغربی سیاستدانوں اور مغربی ذرائع ابلاغ کی بے شرمیوں میں سے ایک یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ فلسطینی مجاہدین دہشت گرد ہیں! جو اپنے گھر کا تحفظ و دفاع کرتا ہے، کیا وہ دہشت گرد ہے؟ جو اپنے ملک کا دفاع و تحفظ کرتا ہے، کیا وہ دہشت گرد ہے؟ جس دن دوسری عالمی جنگ میں جرمنوں نے پیرس پر قبضہ کیا، اور پیرس کے باشندے جرمنوں کے خلاف جدوجہد کرتے تھے، تو کیا فرانسیسی دہشت گرد تھے؟ یہ کیسی بات ہے کہ وہ تو مدافع اور جدوجہد کرنے والے ہیں اور فرانس کے لئے قابل فخر ہیں، لیکن حماس اور اسلامی جہاد تحریک دہشت گرد ہیں؟ اے بے شرمو! غزہ کے عوام اور فلسطینی مجاہدین نے دنیا کے جھوٹوں کو ذلیل و رسوا کر دیا۔
حضرت آیت اللہ العظمٰی خامنہ ای (دام ظلہ العالی) نے فرمایا: طوفان الاقصٰی کی کاروائی دشمن پر ایسے قلیل گروہ کا غلبہ ہے جن کے پاس وسائل کی قلت ہے، تاہم ایمان اور عزم راسخ کے ہتھیار سے لیس ہیں؛ اس صاحب ایمان گروہ نے دشمن کے برسوں کی مجرمانہ کوششوں کے نتیجے میں حاصل نتائج و ثمرات کو چند ہی گھنٹوں میں دھؤاں بنا کر برباد کر دیا نیز فلسطینیوں نے آج غاصب ریاست اور اس کے حامی استکباری ممالک کو اپنے عمل، شجاعت اور بعدازاں اپنے صبر سے، ذلیل و رسوا کر دیا۔
آپ نے فرمایا: غاصب ریاست کے مظالم و جرائم کے مقابلے میں عالم اسلام سے دہری توقع کی جاتی ہے، اسلامی ممالک اگر فلسطین کی مدد نہ کریں، تو گویا کہ وہ فلسطین کے دشمن کو ـ جو درحقیقت اسلام اور انسانیت کا دشمن ہے ـ تقویت پہنچائیں گے اور کل کلاں یہی خطرہ ان بھی پیش آئے گا۔
رہبر انقلاب نے دنیائے اسلام کے میدان میں آنے، اور اسلامی حکومتوں کی طرف صہیونی جرائم اور غزہ پر صہیونی بمباری کے خاتمے پر اصرار کی ضرورت پر زور دیا اور ان حکومتوں سے مطالبہ کیا کہ صہیونی ریاست کو تیل اور اشیائے خورد و نوش کی ترسیل فوری طور پر بند کریں اور اس ریاست کے ساتھ معاشی تعاون نہ کریں، اور تمام عالمی فورموں میں دو ٹوک الفاظ میں، کسی لکنت، ہچکچاہٹ اور لفظی ہیر پھیر کے بغیر، اونچی آواز سے غاصب ریاست کے جرائم اور المناک اقدامات کی مذمت کریں۔
رہبر انقلاب نے فرمایا: البتہ جو ضرب صہیونی ریاست کو پڑی ہے وہ ناقابل تلافی ہے، یہ میں نے پہلے بھی کہا، اور اب بھی تاکید کرتا ہوں اور دہراتا ہوں، رفتہ رفتہ صہیونیوں کے عوامل کی باتوں میں بھی اس حقیقت کا اقرار دکھائی دیا، کہ جو کاری ضرب ان پر پڑی ہے، ایسی نہیں کہ اس کا ازالہ کیا جا سکے، وہ اس کا ازالہ نہيں کر سکتے۔ صہیونی ریاست اس وقت عاجز اور بے بس ہے اور اپنے عوام سے بھی جھوٹ بولتی ہے، وہ حیرت زدہ اور پریشان ہے، اپنے عوام سے بھی جھوٹ بولتی ہے۔ یہ جو وہ کہتی ہے کہ فلسطینیوں کے ہاتھ میں گرفتار صہیونی قیدیوں کے لئے فکرمند ہے، یہ بمباریاں جو وہ صہیونی کر رہے ہیں، ان میں ان کے قیدی بھی فنا ہو سکتے ہیں؛ ۔۔۔ وہ اپنی لاچارگی کی رو سے جھوٹ بول رہی ہے؛ اس وقت صہیونی ریاست حیرت سے دوچار ہے، لاچارگی سے دوچار ہے، اسے کچھ سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ اسے کیا کرنا چاہئے اور جو بھی کرتی ہے، اضطرار اور مجبوری کی وجہ سے ہے۔ اگر امریکی حمایت نہ ہوتی اور نہ تو تو قطعی طرف صہیونی ریاست مفلوج ہو کر رہ جائے گی۔
امام خامنہ ای (دام ظلہ العالی) نے فرمایا: عالم اسلام اس حقیقت کو نہ بھولے کہ اس اہم اور فیصلہ کن مسئلے میں جو عنصر فلسطین میں ایک مسلمان قوم کے مد مقابل کھڑا ہے وہ امریکہ ہے، فرانس ہے، برطانیہ ہے، عالم اسلام اس حقیقت کو نہ بھولے، اس کو سمجھ لیں، اپنے لین دین، اپنے قواعد اور اپنے تجزیوں ميں اسے نہ بھولیں، یہ کہ کون ہے جو کھڑا ہے اور مظلوم عوام اور مظلوم قوم پر دباؤ لا رہا ہے اور مظالم ڈھا رہا ہے، یہ صرف صہیونی ریاست ہی نہیں ہے۔
آپ نے فرمایا: ہمیں کوئی شک نہیں ہے کہ "فَاصْبِرْ إِنَّ وَعۡدَ ٱللَّهِ حَقّٞۖ؛ یقیناً اللہ کا وعدہ سچا ہے"وَلَا يَسْتَخِفَّنَّكَ الَّذِينَ لَا يُوقِنُونَ؛ تو ہرگز وہ لوگ آپ کو [اپنے منفی افکار سے] متزلزل اور سست نہ کر دیں، جو اللہ کے وعدوں پر یقین نہیں رکھتے"۔ (روم-60) اور ان شاء اللہ آخری فتح، عنقریب، فلسطینی عوام اور مملکت فلسطین کی ہوگی۔