سات اکتوبر 2023ء کو تحریک استقاومت و مزاحمت نے صیہونی حکومت کے خلاف طوفان الاقصیٰ نامی تاریخی آپریشن انجام دیا، جس نے اس حکومت کی چولیں ہلا کر رکھ دی ہیں۔ اس آپریشن میں حماس کے عسکری ونگ القسام بریگیڈ نے اسرائیل کے خلاف نہ صرف زبردست راکٹ بلکہ حیران کن زمینی حملہ بھی کیا۔ قسام بٹالین کے کمانڈر محمد الضیف جو بہت کم بیان دیتے ہیں، انہوں نے اس حملے کا نام "الاقصیٰ طوفان" رکھنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ یہ حملہ مسجد الاقصیٰ پر بنیاد پرست یہودیوں کے مسلسل حملوں کے جواب میں کیا گیا ہے۔ قسام بٹالین کے کمانڈر محمد الضیف کے بقول یہ حملہ مسجد اقصیٰ کے اسلامی تشخص کے دفاع میں کیا گیا۔ گذشتہ ایک ہفتے کے دوران صیہونیوں نے مسجد اقصیٰ پر یہودیوں کی عید "سوکوت" کے نام پر کئی بار حملہ کیا، اس موقع پر فلسطینیوں کے ساتھ جھڑپیں ہوئیں، جس میں متعدد فلسطینی شہری زخمی ہوئے۔ یاد رہے کہ یہ حملہ مسجد الاقصیٰ پر حملے کے حوالے سے فلسطینیوں کا فیصلہ کن ردعمل ہے۔
الاقصیٰ طوفان آپریشن کی سب سے اہم خصوصیت صیہونی حکومت کی حیرانی و بے خبری ہے۔ یہ حملے ایسے وقت کیے گئے ہیں، جب فلسطینیوں کی طرف سے اسرائیل پر حملہ کرنے کا کوئی اشارہ نہیں تھا۔ اسی وجہ سے قدس پر قابض حکومت کو اس حملے سے شدید ضربیں پہنچیں۔ بلاشبہ صیہونی حکومت کی 75 سالہ تاریخ میں یہ سب سے بھاری فوجی شکست تھی۔ مرنے والوں کی صحیح تعداد کے بارے میں کوئی صحیح اعداد و شمار نہیں ہیں، لیکن صرف ایک دن میں ایک سو کے قریب افراد ہلاک ہوئے، جبکہ فلسطینی ذرائع اور حتیٰ کہ بعض اسرائیلی ذرائع نے مرنے والوں کی تعداد 100 سے زائد بتائی ہے۔ زخمیوں کی تعداد بھی ایک ہزار سے زیادہ بتائی جاتی ہے۔
اس حملے کی سب سے اہم بات اسرائیلی انٹیلی جنس کی ناکامی ہے، کیونکہ فلسطینیوں نے آسمان اور سرنگ دونوں کا استعمال کرتے ہوئے ہوا اور زمین دونوں سے حملہ کیا اور بہت سے قیدی نیز مال غنیمت بھی حاصل کیا۔ مرکاوا ٹینک اور آہنی گنبد جسے صہیونی اپنے لئے بہت اہم سمجھتے تھے، عملی طور پر ناکارہ ثابت ہوئے۔ فلسطینی راکٹ آہنی گنبد کو عبور کرتے ہوئے اہم اہداف کو تباہ کرتے رہے۔ تاہم، جو چیز اس حملے اور اسرائیل کی انٹیلی جنس کی ناکامی کو نمایاں کرتی ہے، وہ راکٹ حملے نہیں بلکہ غزہ کی پٹی کے ارد گرد اسرائیل کے زیر قبضہ علاقوں میں حماس کے مجاہدین کا ایک قابل ذکر تعداد میں داخل ہونا اور بعض اڈوں کا کنٹرول اپنے ہاتھوں میں لیکر درجنوں فوجیوں کو گرفتار کرنا ہے ۔ مجاہدین نے کچھ بکتر بند گاڑیوں اور فوجی سازوسامان پر قبضہ کرکے انہیں غزہ واپس لے گئے اور غزہ کی سڑکوں پر ان کی نمائش بھی کی۔
الاقصیٰ آپریشن کی ایک اور اہم خصوصیت اس حملے کے لیے تحریک حماس کی بہترین منصوبہ بندی تھی۔ وقت کے لحاظ سے یہ حملہ اس لئے بھی اہمیت کا حامل تھا، کیونکہ اس وقت صیہونی حکومت داخلی انتشار کے عروج پر ہے۔ چونکہ یہ حملہ زمین اور آسمان دونوں سے کیا گیا تھا اور حماس کی افواج نے درجنوں اسرائیلی فوجیوں کو پکڑ لیا، جس کے مستقبل میں دورس اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ اگر تل ابیب انہیں رہا کرانا چاہے گا تو اسے ان کے بدلے سینکڑوں فلسطینی قیدیوں کو رہا کرنا ہوگا۔ یہ حملہ یوم الکپور یا اکتوبر 1973ء کی جنگ کی سالگرہ کے موقع پر کیا گیا تھا، جو اسرائیل کے خلاف عربوں کی نسبتاً فتح کا دن تھا۔
مزید یہ کہ الاقصیٰ آپریشن اس وقت انجام پایا، جب اسرائیلی اور سعودی حکام تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے ایک معاہدے کے قریب آنے کی بات کر رہے تھے۔ اس بات سے قطع نظر کہ الاقصیٰ آپریشن سعودی عرب اور صیہونی حکومت کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کے معاہدے میں خلل ڈالے گا یا نہیں، اس آپریشن نے ثابت کیا کہ فلسطینی نہ صرف نارمالائزیشن سے متاثر نہیں ہوئے بلکہ اس سے ان کی ڈیٹرنس پاور زیادہ مضبوط ہوئی ہے۔ نارمالائزیشن سے اسرائیل کی سلامتی کو بھی کوئی فائدہ نہیں پہنچا ہے۔