میکدہ میں کبھی میں نے نہ ترانام سنا
نزد عشاق نہ سر و قد رعنا دیکھا
گھر سے نکلا کہ کبھی ڈھونڈ نکالوں گا تجھے
مارا مارا ہی میں پھر تار ہا ، آئی نہ صدا
ہوں رہا خود سے کہ دیکھوں میں رخ ماہ ترا
کیا کروں ، میں نہ ہوا ''میں'' کے سلاسل سے رہا
مل گئی منزل مقصود حریفوں کو، مگر
ایک میں ہی تھا کہ بیچارہ رہا گھر میں پڑا
شمع رخ کا ترے پروانہ بنوں ، حسرت ہے
رحم اے دوست ! ملے دور سے مجھ کو مژدہ
مجھ پہ اے جان! ترے ہجر میں کیاکیا گزری
تو مری جاں میں ہے اور میں نے نہ دیکھا کیا کیا