در ساقی پہ پہروں صورت پروانہ پر مارے
مگر کب تک کوئی آخر دربستہ پہ سرمارے
اڑا دی نیند ہجر یار نے اور شب ہوئی آخر
مثال مرغ حق میں نے بھی نعرے رات بھر مارے
نہیں ہونا میسر گرچہ دیدار رخ دلبر
مگر میں نے تو پھر بھی چھان سب دیوار و در مارے
جدھر جاؤگے دیکھو گے کہ ہر سو، اس کا جلوہ ہے
لیے تصویر اس کی، دیکھ سارے بام و در مارے
غم دلدار میں ، میں نے، بحال مستی بادہ
دو ہنٹر سینہ و سر پر، طمانچے گال پر مارے
مرا سورج، مرا مہر و جوہو کر بے نقاب آیا
تو میں نے خوب طعنے روئے مہر و ماہ پر مارے
جلایا اس طرح دل کو ترے اس نیم غمزہ نے
کہ انگار ے ہی میں نے ملک شرق و غرب پر مارے