میکدہ کے در پہ از روئے نیاز آیا ہوں میں
پیش اصحاب صفا بہر نماز آیا ہوں میں
میں نہ جانوں کیا دروں پردہ اسرار ہے
سنتا ہوں پیر مغاں ہے اہل راز، آیا ہوں میں
تیرے کوچہ میں حقارت سے میں دھتکارا گیا
کردیا دل سوختہ صحرا نے، باز آیا ہوں میں
صوفی خرقے میں ہے، زاہد اپنے سجادے پہ ہے
اور سوئے دیر مغاں نغمہ نواز آیا ہوں میں
اک دل غمگیں لیے از دیر تا مسجد گیا
ہاں لیے امید با سوز و گداز آیا ہوں میں
پرتو رخ کاترے ہو دو جہاں میں غلغلہ
کر کے ہر ذرہ سے سو راز و نیاز آیا ہوں میں