قرآن پاک کی بے حرمتی کیخلاف احتجاج

قرآن پاک کی بے حرمتی کیخلاف احتجاج

سیکڑوں عراقی شہریوں نے بغداد میں سوئیڈن کے سفارت خانے کے سامنے احتجاجی ریلی نکالی اور سوئیڈن کے سفیر کو ملک بدر کرنے کا مطالبہ کیا

تحریر: سید رضی عمادی

 

[امام خمینی(رح): قرآن کریم اتحاد کی دعوت دیتا ہے۔ اس بات کی دعوت کہ آپس میں  اختلاف نہ رکھیں  کہ اس طرح آپ کی ہوا اکھڑ جائے گی اور یہ امر باعث افسوس ہے کہ ..... بعض تفرقے کی دعوت دیتے ہیں  اور چاہتے ہیں  کہ اختلاف پیدا کریں]

 

سوئیڈن میں قرآن پاک کی توہین کی تکرار پر اسلامی ممالک کی حکومتوں، عوام، تجزیہ کاروں اور حکام کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آیا۔ بدھ (28 جون) کی شام کو سٹاک ہوم میں ایک عراقی نژاد سوئیڈن نژاد "سالوان مومیکا" (37 سال) نے عید الاضحیٰ کی چھٹی کے پہلے دن اس شہر کی مرکزی مسجد کے سامنے قرآن پاک کا ایک نسخہ پھاڑ کر اسے آگ لگا دی۔ موہن سیلوان مومیکا کی یہ کارروائی سویڈش حکومت کے تعاون سے کی گئی۔ اس گھناؤنے جرم کے لیے سبز جھنڈی سویڈش کورٹ آف اپیل نے جاری کی تھی۔ دو ہفتے قبل سوئیڈن کی پولیس نے کہا تھا کہ سٹاک ہوم میں دو مظاہرے ہونے جا رہے ہیں، جن میں قرآن پاک کو نذر آتش کیا جائے گا اور پولیس ان مظاہروں کے لیے اجازت نامہ جاری کرنے کے خلاف ہے، تاہم مذکورہ عدالت نے ان کی درخواست مسترد کر دی تھی۔

 

سوئیڈن میں رہنے والے ایک تفتیشی صحافی ولید المقدادی نے روس کے الیوم چینل پر نشر ہونے والے "بہترین گفتگو" پروگرام میں کہا: "سلوان مومیکا کا تعلق شمالی عراق کے صوبہ نینوا سے ہے اور وہ ایک لبرل، ملحد اور انتہاء پسند ہے۔ وہ شامی ڈیموکریٹک پارٹی کے بانی اور "صقور السریان" نامی مسلح گروپ کا کمانڈر تھا، جو صوبہ نینوا کو داعش کے قبضے سے آزاد کرانے کے لیے تشکیل دیا گیا تھا۔ ان کے بقول سیلوان مومیکا کو 2017ء میں جنگی جرائم کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا اور پھر مغربی ممالک کی مداخلت سے رہا ہو کر سوئیڈن چلا گیا اور اب وہ اس ملک کی انتہاء پسند جماعتوں میں سے ایک میں شامل ہوگیا ہے۔ قرآن پاک کی توہین کا عمل سویڈش مسلمانوں اور پوری دنیا کے مسلمانوں کے مذہبی حقوق کی خلاف ورزی کی واضح مثال ہے، جس کے نتیجے میں حکومتوں اور عوام سے لے کر حکام مسلمانوں کا اتحاد نظر آرہا ہے۔

 

سیکڑوں عراقی شہریوں نے بغداد میں سوئیڈن کے سفارت خانے کے سامنے احتجاجی ریلی نکالی اور سوئیڈن کے سفیر کو ملک بدر کرنے کا مطالبہ کیا۔ بعض اسلامی حکومتوں نے بھی قرآن پاک کی توہین پر ردعمل ظاہر کیا۔ سوئیڈن کے سفیر کو طلب کرتے ہوئے متحدہ عرب امارات کی وزارت خارجہ نے زور دیا کہ سویڈش حکومت کی جانب سے انتہاء پسند عناصر کو اجازت دینا اور قرآن پاک کے نسخے کو نذر آتش کرنا معاشرتی اقدار کے احترام میں کمی کو ظاہر کرتا ہے۔ اردن کی وزارت خارجہ نے بھی سوئیڈن کے سفیر کو طلب کیا اور تاکید کی: "یہ اقدامات جرم ہیں اور دنیا بھر کے دو ارب سے زیادہ مسلمانوں کے جذبات کو مشتعل کرتے ہیں۔ اس لیے ان مکروہ حرکات جو کہ نفرت کے کلچر کے بدترین مظہر ہیں، ان کا مقابلہ کیا جانا چاہیئے اور امن اور دوسروں کو قبول کرنے کے کلچر کو فروغ دینا چاہیئے۔" حشد الشعبی کے کمانڈر "فالح الفیاض" نے بھی اس قابل مذمت فعل کو "شرمناک دہشت گردانہ اقدام" قرار دیا۔

 

بین الاقوامی تعلقات کے محقق اور عرب دنیا کی سیاسی معیشت کے تجزیہ کار ابوبکر الدیب نے بھی سوئیڈن کے خلاف پابندیوں کے تعزیری ہتھیار کے استعمال پر زور دیا اور کہا کہ سوئیڈن کے خلاف اقتصادی پابندیوں کے ہتھیار کو اگر فعال کیا جائے تو عرب اور اسلامی ممالک کے سوئیڈن کو 20 ارب ڈالر کے قریب نقصان پہنچایا جا سکتا ہے۔ صدر ایران نے کہا ہے کہ امت مسلمہ قرآن پاک کی توہین برداشت کو نہیں کرے گی۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر سید ابراہیم رئیسی نے کہا کہ یورپی ممالک جو آزادی اور دوسروں کے احترام کا دعویٰ کرتے ہیں، وہ سب سے قیمتی آسمانی کتاب جو انسان کی رہنمائی کے لیے آئی ہے، کی توہین کر رہے ہیں۔ سید ابراہیم رئیسی نے کہا کہ اس اقدام نے نہ صرف دو ارب مسلمانوں بلکہ تمام آسمانی مذاہب کے جذبات کو مجروح کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ قرآن کریم کی توہین تمام آسمانی مذاہب کی توہین ہے، انسانیت کی توہین اور تمام انسانی اقدار کی توہین ہے۔ ایران کے صدر نے کہا کہ اس توہین کے خلاف عالم اسلام سراپا احتجاج ہے۔

 

اسلامی تعاون تنظیم کے سیکرٹریٹ نے یہ بھی اعلان کیا کہ اگلے ہفتے اس تنظیم کا ایک غیر معمولی اجلاس سعودی عرب کے شہر جدہ میں منعقد ہوگا، جس کا مقصد سوئیڈن میں قرآن پاک کی توہین کی تحقیقات کرنا ہے۔ اسی دوران عراق میں شیعہ مرجع آیت اللہ سید علی سیستانی کے دفتر نے ایک بیان میں اعلان کیا کہ اس نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس کو قرآن پاک کی بے حرمتی کے بارے میں ایک پیغام بھیجا ہے۔ اس بیان میں کہا گیا ہے: "آزادی اظہار کا احترام اس شرمناک رویئے کی اجازت نہیں دے سکتا، جو دنیا کے دو ارب سے زائد مسلمانوں کے مقدسات پر کھلا حملہ ہو اور انتہاء پسندانہ نظریات کے پھیلاؤ اور غلط سلوک کے لیے موزوں ماحول کی تشکیل کا باعث بنے۔ ادھر صدر تحریک کے کچھ حامیوں نے بغداد میں سوئیڈن کے سفارت خانے پر حملہ کیا ہے۔

 

روسیا الیوم کی رپورٹ کے مطابق مقتدیٰ صدر کے حامیوں نے سوئیڈن میں قرآن پاک کی بے حرمتی کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے بغداد میں سوئیڈن کے سفارت خانے پر حملہ کیا اور قرآن مجید کی توہین کے خلاف نعرے لگائے۔ سوئیڈن کے سفارت خانے کے ملازمین پہلے ہی عمارت سے نکل چکے تھے۔ یہ حملہ ایسے وقت میں ہوا، جب مقتدیٰ صدر نے قرآن پاک کی بے حرمتی کی مذمت کی۔ اس سے قبل صدر تحریک اور بعض دیگر سیاسی گروپوں نے جمعے کی شام سوئیڈن کے سفارت خانے کے سامنے مظاہرے کی کال دی تھی۔ واضح رہے کہ 37 سالہ انتہاء پسند سالوان مومیکا نے عید الاضحیٰ کے پہلے دن قرآن مجید کو پھاڑ کر اسے آگ لگا دی۔ اس کا دعویٰ تھا کہ وہ اپنے اس عمل سے اظہار رائے کی آزادی کی اہمیت اجاگر کرنا چاہتا تھا۔ گستاخ قرآن نے مزید کہا کہ یہ جمہوریت کا تقاضا ہے، اگر اُس سے یہ کہا جائے کہ تم یہ نہیں کرسکتے ہو تو یہ خطرناک ہوگا۔

ای میل کریں