امام خمینی کے وصیت نامے پر طائرانہ نگاہ
بہرحال چودہ خرداد 1368 مطابق چار جون 1989 ماہرین کی کونسل نے اپنا اجلاس تشکیل دیا اور حضرت آیۃ اللہ العظمیٰ خامنہ ای کے توسط سے حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کا وصیت نامہ پڑھے جانے کے بعد کہ جس میں دو گھنٹے لگے حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے جانشین اور رہبر انقلاب اسلامی کے تعین کے لئے تبادلۂ خیال شروع ہوا اور کئی گھنٹوں کے صلاح و مشورے کے بعد حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای کو، جو اس وقت اسلامی جمہوریۂ ایران کے صدر تھے اور حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے قریبی شاگرد، اسلامی انقلاب کی ممتاز شخصیتوں اور پندرہ خرداد کی تحریک کے رہنماؤں میں شمار کئے جاتے تھے اور جنہوں نے دیگر انقلابی جانبازوں کے ہمراہ حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی تحریک کے تمام مراحل میں ہر طرح کی سختیوں اور مصائب و آلام کا سامنا کیا تھا، اتفاق آراء سے اس عظیم و خطیر ذمہ داری کے لئے منتخب کیا گيا مغربی ممالک اور ملک کے اندر ان کے حمایت یافتہ عناصر حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کو شکست دینے کی برسوں کی کوششوں کےبعد مایوس ہوچکے تھے اور وہ اس امید میں تھے کہ امام کی رحلت کے بعد وہ اپنی سازشوں اور ناپاک منصوبوں میں کامیاب ہوسکیں گے لیکن ایرانی عوام کے فہم و فراست، ماہرین کی کونسل کے بروقت فیصلے اور اس فیصلے کی امام کے تمام پیروؤں اور چاہنے والوں کی طرف سے بھرپور حمایت سے انقلاب دشمن عناصر کی تمام امیدوں پر پانی پھیر گیا اور نہ فقط یہ کہ حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی وفات سے ان کا مشن ختم نہیں ہوا بلکہ اسے نئي زندگی مل گئی۔ کہیں الہی افکار و نظریات اور حقائق کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے!
پندرہ خرداد 1368 مطابق 5 جون 1989 کے موقع پر تہران اور ایران کے دیگر شہروں اور قصبوں و دیہاتوں سے آئے ہوئے دسیوں لاکھ سوگواروں کا ایک سیلاب تھا جو تہران کے مصلائے بزرگ ( عیدگاہ ) میں ٹھاٹھیں مار رہا تھا۔ لوگ اس عظیم مرد مجاہد کو، جس نے اپنی تحریک اور انقلاب سے ظلم و ستم کے سیاہ دور میں انسانی اقدار و شرافت کی خمیدہ کمر کو استوار کردیا تھا اور دنیا میں خداپرستی اور پاک انسانی فطرت کی جانب واپسی کی تحریک کا آغاز کیا تھا، الوداع کہنے کے لئے آئے تھے۔ آپ کے جنازے کی آخری رسومات میں سرکاری رسومات کا کوئی نام ونشان نظر نہیں آتا۔ ساری چیزیں عوامی اور عاشقانہ تھیں ۔ حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کا پیکر مطہر جو سبز تابوت میں تھا کروڑوں سوگواروں اور ماتم کنان عزاداروں کے ہاتھوں پر ایک نگینے کی مانند جلوہ نمائی کررہاتھا اور ہر کوئی اپنی زبان سے اپنے محبوب قائد سے وقت رخصت محو گفتگو تھا اور اشک غم بہارہا تھا ۔
درو دیوار پر سیاہ پرچم لگائے گئے تھے اور فضا میں چاروں طرف صرف تلاوت کی آواز سنائی دے رہی تھی اور جیسے ہی رات آئي ہزاروں شمعیں اس مشعل فروزاں کی یاد میں مصلّی بزرگ (عیدگاہ ) اور اس کے اطراف کے ٹیلوں پر روشن ہوگئیں۔ سوگوار و عزادار کنبے ان شمعوں کے گرد حلقہ بنائے بیٹھے تھے اور ان کی نگاہیں ایک نورانی بلندی پر مرکوز تھیں۔ بسیجیوں (رضاکاروں) کی فریاد "یاحسین" نے جو یتیمی کا احساس اپنے سینے میں لئے تھے اور اپنا سر و سینہ پیٹ رہے تھے ماحول کو عاشورائی بنادیا تھا اور چونکہ انہیں یقین ہوگیا تھا کہ اب حسینیۂ جماران میں حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی دلنشین آواز نہیں سنائی دے گي اس لئے یہ غم انہیں مارے ڈال رہا تھا۔ لوگوں نے پوری رات مصلی بزرگ (عیدگاہ ) میں گزاری۔ 6 جون 1989 کی صبح ہوتے ہی دسیوں لاکھ سوگواروں نے مرجع تقلید آیت اللہ العظمی گلپایگانی کی امامت میں اشکبار آنکھوں کے ساتھ حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے پیکر مطہر پر نماز جنازہ پڑھی۔
12 بھمن 1357 ہجری شمسی مطابق یکم فروری 1979 کو حضرت امام خمینی رحمتہ اللہ علیہ کی فاتحانہ وطن واپسی اور ان کے استقبال میں شاندار و عدیم المثال اجتماع اور پھر آپ کی آخری رسومات میں سوگواروں کا اس سے بھی عظیم اجتماع تاریخ کے حیران کن واقعات ہیں۔ خبر رساں ایجنسیوں نے یکم فروری سنہ 1979 کو حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی وطن واپسی کے موقع پر استقبال کے لئے آنے والے عاشقوں اور انقلابیوں کی تعداد 60 لاکھ بتائي تھی اور آپ کے جنازے میں شریک سوگواروں کی تعداد 90 لاکھ بتائي جبکہ حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی دس سالہ قیادت کے دوران انقلاب سے دشمنی، آٹھ سالہ جنگ اور مغربی و مشرقی بلاکوں کی مشتکرہ سازشوں کی وجہ سے ایرانی عوام نے بے پناہ سختیاں اور مشکلات برداشت کیں اور اپنے بے شمار عزیزوں کو اس راہ میں قربان کیا تھا چنانچہ یہ فطری امر تھا کہ اب ان کا جوش و خروش بتدریج کم ہوجاتا لیکن ایسا ہرگز نہ ہوا ۔ حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے الہی مکتب میں پرورش پانے والی نسل کو حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے اس فرمان پر پورا یقین و اعتقاد تھا کہ اس دنیا میں زحمتوں ،مصیبتوں ، مشکلات ، فداکاری اور جانثاری کی عظمت ان بلند و گرانقدر مقاصد و اہداف کے برابر ہوتی ہے ۔
حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے سوگواروں کا جم غفیر "بہشت زہرا" (تہران کے قبرستان) میں تدفین کے وقت اپنے مقتدا کی آخری جھلک دیکھنے کے لئے بے تاب تھا۔ لوگ ایک دوسرے پر ٹوٹے پڑ رہے تھے جس کی وجہ سے آپ کی تدفین ناممکن ہوگئی تھی اس صورتحال کے پیش نظر ریڈیو سے باربار اعلان کیا گيا کہ لوگ اب اپنے اپنے گھروں کو لوٹ جائیں تدفین کی رسومات بعد میں انجام دی جائیں گی اور بعد میں اس کا اعلان کیا جائے گا۔
ذمہ داران کو بخوبی علم تھا کہ جیسے جیسے وقت گزرے گا لاکھوں عاشقان امام جو دیگر شہروں سے تہران کے لئے روانہ ہوچکے ہیں تشییع جنازہ اور تدفین کی رسومات میں شامل ہو جائیں گے لہذا اسی دن سہ پہر کے وقت سوگواروں فرط غم کے عالم میں حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے جسد مطہر کی تدفین کی گئی۔ حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی رحلت بھی ان کی حیات مبارک کی مانند ایک اور بیداری و تحریک کا سرچشمہ ثابت ہوئی اور ان کی یاد، تعلیمات و افکار اور ان کا مشن زندہ جاوید بن گیا کیونکہ وہ ایک حقیقت تھے اور حقیقت ابدی و لافانی ہوتی ہے