ہائے جس دن میں ترے غم میں گرفتار ہوا
خود فراموش ہوا، تیرا طرفتدار ہوا
خم گیسو کی تمنا نے کمر خم کردی
پھر میں انگشت نمائے سر بازار ہوا
ہائے وہ رات کہ جو رات ترے ساتھ کٹی
جس کی حسرت لیے میں مونس خمار ہوا
دل پہ فرقت میں جو گزری ہے، سناؤں کس کو
زار و بیمار ہوا، کشتہ آزار ہوا
یار ہے میکدہ میں ، آؤ سنیں دوست کی بات
طوطی غافل ہے کہ میں محو رخ یار ہوا
چشم بیمار میں تیری، تھی عجب کیفیت
سارے عالم کو میں بھولا، ترا بیمار ہوا