تحریر: مجتبیٰ علی شجاعی
قائد بے مثل، رہبر کبیر حضرت آیت اللہ سید روح اللہ الموسوی الخمینی (رحمۃ اللہ علیہ) کا شمار دنیائے انسانیت کے ان عظیم ترین اسلامی رہنماؤں میں ہوتا ہے، جنہوں نے اپنے بلند و بالا افکار، پختہ کردار، عزم و حوصلہ، شجاعت اور دلیری سے صفحہ ہستی پر انسانیت کی بقا کے لئے گہرے نقوش چھوڑے اور سوئے ہوئے ضمیروں کو بیدار کرکے ایک ایسا حیات بخش انقلاب برپا کر دیا، جس نے عالمی سامراجیت کی کمر توڑ دی اور سامراجیت کا زور و دبدبہ زیر پا پاش پاش کیا۔ نظام الہیٰ کے اس عظیم علمبردار نے بیسویں صدی میں تاریخ کا دھارا موڑ کر "ھیہات من الذلہ" کے الہیٰ شعار کو عملی جامہ پہنایا۔ ظلم و جور پر استوار ہزار سالہ شہنشاہیت اور اس شہنشاہیت کے درپردہ آقاؤں کو دھول چٹائی۔ نظام الہیٰ کے اس عظیم علمبردار کی 4 جون کو 34 ویں برسی ہے، اس برسی کے موقع پر ہم اپنے اس مرحوم قائد کو سلام عقیدت پیش کرتے ہیں۔
آج وہی غمناک اور المناک دن ہیں، جب امت مسلمہ اپنے عزیز قائد رہنما و رہبر سے محروم ہوگئی اور یہ تاریخ ساز شخصیت آنے والی نسلوں کے لیے ایک میراث چھوڑ کر چلی گئی۔ ان کی سیرت و کردار، پاکیزگی و انسانیت، غیرت و عزم، عفت و عصمت اور ظلم و ستم کے خلاف لرزہ طاری کر دینے والی آواز نے ظالموں، جابروں اور اسلام دشمن طاقتوں کو للکارا۔ بیسویں صدی کی تاریخ میں ایک ایسا نظام تشکیل دیا، جس نے مظلومین، محرومین اور مستضعفین کو جینے کا سلیقہ سکھایا۔ امام راحل نے ستم زدہ اقوام کے روشن مستقبل کی تعمیر کا خاکہ پیش کیا۔ قائد اعظم امام خمینی ؒ پوری خفتہ ضمیر ملت کوا یک ایک کرکے جگایا، قوم کے اندر شعور کی بیداری پیدا کی، جس کا ثمرہ انفجار نور کی صورت میں نکلا۔
امام خمینی ؒکے قیام سے پہلے ایران کی تہذیب میں امریکائی اسلام پوری طرح سے گھر کرچکا تھا۔ اسلام پر یورپ کی بیہودہ اور بدترین تہذیب غالب ہوچکی تھی۔ مغرب پرستی کا بول بالا تھا۔ مسلمان ہوتے ہوئے بھی حجاب کی مخالفت کی جاتی تھی، یہاں تک کہ باپردہ خواتین کو حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا اور ان کا مذاق اڑایا جاتا تھا۔ شرم و حیا، اخلاق اور عصمت کے پردے چاک کیے جا رہے تھے۔ برہنگی، عریانیت، بے حیائی اور بداخلاقی کو تہذیب کا جزو لائنفک سمجھا جا رہا تھا۔ لاقانونیت کا بول بالا تھا۔ نہ صرف مذہبی اقدار پر شاہی بدبخت اور ان کا پشت پناہ عالمی سامراج قابض بنا بیٹھا تھا بلکہ اقتصادی طور پر بھی انہوں نے ایران کو بربادی کے دہلیز پر لاکھڑا کر دیا تھا۔ ایران کے قدرتی ذخائر سے اغیار مستفید ہو رہے تھے۔ سامراج نے ایران کے نااہل شاہی حکمرانوں کو ذلت کا طوق پہنایا ہوا تھا۔
ان مشکل اور کھٹن حالات میں امام خمینی دلیرانہ اور مردانہ وار انداز میں کھڑے ہوئے۔ انہوں نے اس باطل، جابر اور ظالم نظام کو کھل کر چلینج کیا۔ تحریک عاشورہ کی تاریخ دہرائی اور اسلحہ کے مقابلے میں خالی ہاتھوں سے ایک ایسا بے نظیر کارنامہ انجام دیا، جس کی مثال تاحال تاریخ دہرا نہ سکی۔ حقیقی معنوں میں امام راحل حضرت امام خمینیؒ نے اسلامی قدار کا احیاء کیا۔ وہ اقدار جو برسوں سے بھولی ہوئی تھیں۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی فرماتے ہیں کہ امام خمینیؒ نے عظیم الشان انقلاب کے ذریعے اسلام کی فراموش شدہ اقدار کو زندہ کیا، اسلام کے حقیقی چہرے سے غفلت کا غبار ہٹا دیا اور حقیقی اسلام کو ظاہر کیا۔ امام خمینی استکباری محاذ کی زیادتیوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اور ان کے خلاف ایک تحریک پیدا کی۔ عالم اسلام کا یہ نبض شناس لیڈر ایک ایسے وقت میں تشریف لایا، جب ہر چیز ناانصافی، بدعنوانی اور ظلم سے بھری پڑی تھی اور مظلوم لوگ موت کے دہانے پر تھے۔
امت اسلامیہ کی اس خدا پرست شخصیت حضرت امام خمینی ؒ نے بلند آواز سے "لاشرقیہ لامغربیہ، اسلامیہ اسلامیہ" کہہ کر پکارا۔ ایک مضبوط اسلامی تحریک پیدا کی۔ یہ تحریک کامیاب ہوئی اور دنیا کے گوشے گوشے میں اس تحریک نے شیعہ و سنی کے تمام فروعی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر اپنے گہرے نقوش چھوڑے اور آنے والی ہزاروں انسانی نسلوں کے لئے مشعل راہ بن گئی۔ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی عجز و انکساری اور منفرد خصوصیات کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کی آل اور صحابہ کرام اور اہل بیت علیہم السلام کی سنت کو زندہ کیا۔ انہوں نے مظلوموں کے دلوں اور روحوں سے سپر پاور شیطانی قوتوں کا خوف نکال دیا اور اس میں نہ صرف اسلامی دنیا بلکہ پوری بشریت شامل ہے۔
حضرت امام خمینی مسلمانوں کے درمیان خصوصاً سنیوں اور شیعوں کے درمیان اختلافات کو دور کرنے کے لیے ہمیشہ کوشاں رہے ہیں۔ ان کے مطابق یہ اختلافات اسلامی معاشروں میں اسلام دشمنوں کی چالوں اور سازشوں سے ماخوذ ہیں۔ امام خمینی کا خیال تھا کہ اسلامی انقلاب کی فتح کا راز اتحاد کے سائے میں ہے اور ان کا خیال تھا کہ اسلامی انقلاب کی برکات میں سے ایک برکت جس نے ایرانی قوم اور امت اسلامیہ کو عزت بخشی، وہ اتحاد ہے۔ انقلاب اسلامی ایران کا عظیم الشان کارنامہ انجام دے کر امام خمینی ؒ نے اسلام اور مسلمانوں کو طاقت اور وقار عطا کیا، مسلمانوں کے ضمیروں کو زندہ کیا اور اسلام ناب محمدی ؒکو زندہ کیا۔ امام خمینی ؒ ایک فرد واحد نہیں بلکہ ایک مکتب ہیں، جس کے افکار تاریخ بشریت پر چھائے ہوئے ہیں اور مکتب خمینیؒ سے آج بھی رہبر انقلاب اسلامی، سید حسن نصراللہ، شہید قاسم سلیمانی، اسماعیل ہنیہ اور شیخ زکزکی جیسے نڈر اور بے باک لیڈر جنم لیتے ہیں۔ جو سینہ تان کر ظالم و جابر قوتوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال رہے ہیں۔
امام خمینی ؒ ہر حال میں مشعل راہ ہیں، جو بیک وقت ایک مفکر، محقق، مدبر، مصنف، مجتہد، سیاسی قائد اور مذہبی رہنماء تھے۔ آپ اخلاق حسنہ اور اوصاف حمیدہ کے اعتبار سے اپنی مثال آپ تھے۔ بانی انقلاب ہوتے ہوئے بھی امام راحل ؒ نے سادہ طرز زندگی اختیار کی اور تمام ملت خاص طور پر سیاسی و مذہبی رہنماوں کو یہ درس دیا کہ لالچ و طمع سے عاری زندگی بسر کی جائے اور اسلام، مسلمین اور مظلومین کے معاملے میں دشمن کے ساتھ کوئی بھی سمجھوتہ نہ کریں۔ امام خمینی ؒ کے تئیں بہترین خراج عقیدت یہی ہے کہ آپ کی سیرت پر من و عن عمل پیرا ہو جائیں۔
تو اٹھا قوم کی تقدیر کا محافظ بن کر
تیری تدبیر نے طوفانوں کے رخ موڑ دیئے