جب ایرانی قوم کی اسلامی تحریک کا دائرہ پوری دنیا پر محیط ہو گیا تو عالمی استکبار اپنی تمام قوتوں کے ساتھ اس تیز رفتار اور انقلابی تحریک کا سنجیدگی سے مقابلہ کرنے کے لیے اٹھ کھڑا ہوا - جس نے اپنے تمام مفادات کو خطرے میں دیکھا اور ہر قسم کی سازشوں اور فریب کاری سے اس انقلاب کی فتح کو روکنے کی کوشش کی۔ لیکن جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا ہے: «و لایحیق المكر السییء الا باهله؛ (فاطر 43) "بری چالیں اور بدصورت خیالات صرف اپنے مالکوں کا ہاتھ پکڑتے ہیں" غیبی ہاتھ اور خدا کے فضل کی بدولت مشرق و مغرب کے شیطانوں کی تمام سازشیں اور منصوبے اپنے آپ پر لوٹ آئے اور اس کردار کو ناکام بنا دیا گیا اور انقلاب اسلامی ایران کو فتح نصیب ہوا۔
امام خمینی (رح) انقلاب کی فتح میں غیبی امداد کے بارے میں فرماتے ہیں:
پیرس میں اپنی رہائش کے آخری ایام میں ایک بات کی طرف میری توجہ مرکوز ہوئی اور اس انقلابی تحریک کی کامیابی کی مجھے بہت زیادہ امید ہوگئی۔ پیرس میں جن افراد اور اجتماعات کو اس کی یاددہانی کراسکتا تھا، میں نے کرائی۔ وہ بات یہ تھی کہ دنیا میں رونما ہونے والے انقلابات میں ایسا کم ہی ہوا ہے یا شاید بالکل نہ ہوا ہو کہ ایک بات ملک کے مرکز میں کہی جاتی ہو اور انتہائی دور دراز کے پسماندہ دیہاتوں میں بھی وہی بات کہی جاتی ہو۔ اس بات کو روشن خیال افراد بھی کہتے ہوں اور گلی کوچوں کے عوام، کسان اور کاشتکار بھی اسی کا مطالبہ کرتے ہوں۔ میں اس وقت مطلع ہوا اور ایران سے میرے پاس آنے والے بعض افراد نے مجھے اطلاع دی کہ ملت ایران کا مطالبہ ایسا ہے کہ جو زبان زد خاص وعام ہے حتی کہ ہر اعتبار سے پسماندہ ترین دیہاتوں تک یہ مطالبہ پھیل گیا ہے۔
آخری دنوں میں ایک شخص میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ میں کمرہ کے دیہاتوں، چاپلق کے دیہاتوں اور لرستان کے دیہاتوں میں گیا اور وہاں چل پھر کر میں نے جائزہ لیا۔ اس شخص نے یہاں آکر کہا کہ میں جن دیہاتوں میں بھی گیا، میں نے دیکھا کہ صبح ہوتے ہی جلوس نکالا جاتا، عالم دین آگے آگے اور دیہات کے لوگ اس کے پیچھے ہوتے۔ اس شخص نے ایک دیہات کا نام لیتے ہوئے کہا کہ میں وہاں گیا، حسن فلک دیہات جو کہ کمرہ کے مضافات میں ہے، ایک قلعہ ہے، جب میں نے اس کو دیکھا تھا تو شاید اس وقت دس پندرہ خاندان وہاں رہتے تھے، چھوٹا تھا اور ایک پہاڑ کے دامن میں واقع تھا۔ اس شخص نے کہا کہ میں وہاں گیا تو دیکھا کہ وہاں بھی وہی باتیں تھیں جو تہران میں تھیں ۔
یہ ایک پھیلاؤ تھا جو [انقلاب] سارے ایران میں وجود میں لایا تھا اور دوسرے پھیلاؤ کا تعلق گروہوں اور جماعتوں سے تھا۔ پرائمری اسکولوں کے بچے یا ان سے بھی چھوٹے بچے وہی نعرے لگاتے تھے جو سارے عوام لگاتے تھے۔ مزدور، ٹھیکیدار، اساتذہ، عدلیہ کے ارکان، علماء، طالب علم اور روشن خیال افراد سب کا ایک ہی مطالبہ تھا اور سب متحد تھے۔
میں نے اس سے یہ سمجھا کہ غیبی ہاتھ کارفرما ہے۔ انسان جس قدر بھی روشن خیال ہو اور جس قدر بھی چاہے کہ ایسی صورتحال پیدا ہو تب بھی اس وسعت کے ساتھ ایسی صورتحال پیدا نہیں کی جاسکتی ہے۔ میں نے یہ جانا کہ خدائے تبارک وتعالیٰ کی اس مسئلے پر نظر ہے اور اس سے مجھے کامیابی کا یقین ہوگیا، البتہ میرا اندازہ یہ نہیں تھا کہ اتنی جلدی اور اس آسانی سے کامیابی حاصل ہوجائے گی۔
(صحیفہ امام، ج ۶، ص ۴۸۹)