امام خمینی (رح) کی نظر میں امام علی (ع) کی حکومت میں انسان کی اہمیت

امام خمینی (رح) کی نظر میں امام علی (ع) کی حکومت میں انسان کی اہمیت

تاریخ گواہ ہے کہ حضرت علی (ع) کے لئے حکومت قبول کرنا اور اقتدار کی باگ ڈور سنبھالنا ریاست طلبی اور قبضہ کے معنی میں نہیں ہے

موجودہ دنیا کی بہت ہی اہم بحث حکومتوں کے نزدیک انسانوں کی ارزش اور اہمیت ہے۔ حقوق بشر کی حامی اور مدافع تنظیمیں اور ادارے اس موضوع کو "حقوق بشر" کے عنوان سے پیش کرتی ہیں۔ حضرت علی (ع) کی حکومت میں انسان کی کرامت حکومت علوی انسان کے مقام و مرتبہ کی وضاحت کی ذمہ دار ہے۔ اس کے لئے ہم نے حکومت کے بارے میں حضرت علی (ع) کے نظریہ پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

 

تاریخ گواہ ہے کہ حضرت علی (ع) کے لئے حکومت قبول کرنا اور اقتدار کی باگ ڈور سنبھالنا ریاست طلبی اور قبضہ کے معنی میں نہیں ہے۔ بلکہ اس معنی میں حکومت حضرت کے نزدیک بہت ہی معمولی اور پست چیز ہے یعنی زکام میں مبتلا ایک بکری کی چھینک سے یا ایک پھٹی ہوئی جوتی سے بھی کم اہمیت رکھتی ہے۔ کیونکہ جو جوتی ضرورت برطرف کرے اور مسئولیت بھی نہ رکھتی ہو اس ریاست و مقام اور عہدوں سے کہیں بہتر اور برتر ہے جس میں ذمہ داریاں ہوں۔

 

حضرت امام علی (ع) کی گفتار اور رفتار میں بکثرت دکھائی دیتا ہے کہ آپ نے بارہا حکومت کے سر پر مارا اور اسے تحقیر کیا ہے اور کیا جگہ پر فرماتے ہیں: میرے نزدیک یہ حکومت ایک کوڑھی کے ہاتھ میں سؤر کی ہڈی سے بھی زیادہ پست ہے۔

 

یہ ایک تصویر ہے جو امام علی (ع) حکومت کے بارے میں پیش کررہے ہیں وہ بھی اس وقت جب عالم اسلام کی باگ ڈور آپ کے ہاتھ میں ہے البتہ علی (ع) کے نزدیک اس حکومت کی اہمیت ہے جو عدالت اجراء کرنے کا وسیلہ، اقدار الہی کے احیاء اور انسانی کرامت کی پاسداری کا ذریعہ ہو۔ یعنی حضرت علی (ع) کی نظر میں حکومت اس وقت اہمیت رکھتی ہے جب حاکم اور ذمہ دار انسان اس سیاسی وسیلہ کی مدد سے کسی حق کو ثابت کرے، کسی باطل کی روک تھام کرے اور صاحبان اقتدار اور ظالموں کے ہاتھوں برسہابرس سے پامال شدہ انسانی کرامت کو پھر سے زندہ کرے اور اسے واپس لوٹادے۔

 

حضرت علی (ع) کے مکتب میں حکومت ذاتی منصب اور عہدہ نہیں ہے کہ اس کے ذریعہ حاکم اپنے اور اپنے اطراف والوں کے لئے سہولت اور عیش و عشرت کے اسباب فراہم کرے بلکہ ایک گروہ کے ہاتھ میں امانت ہے تاکہ اس کی مدد سے حکومت کا اصلی اور بنیاد مقصد کہ حق کا احیا، عدالت کا اجراء اور انسانی کرامت کی پاسداری کی جائے۔

 

حکومت کی اس طرح کی کارکردگی اسلام کے سیاسی نظام کی خصوصیت ہے اور علوی حکومت کا ایک امتیاز ہے، پہلی بات تو یہ ہے کہ امانت اور مسئولیت ہے نہ حق اور فضیلت۔ دوسری بات؛ اس نقطہ نظر سے حکام، صاحبان ریاست صرف اور صرف لوگوں کے حقوق کے محافظ اور نگہبان ہیں۔

 

حضرت امام علی (ع)، آذربائیجان کے گورنر اشعث بن قیس کو خط میں خطاب کرتے ہیں: یقینا جو کام تمہارے حوالہ کیا گیا ہے لقمہ تر نہیں ہے بلکہ تمہاری گردن پر ایک امانت کا بوجھ ہے اور اس کی حفاظت اور پاسداری میں اپنے بالاتر مسئول کے سامنے جواب دہ ہو۔

 

اس کے بارے میں استاد مطہری فرماتے ہیں: ایک مسئلہ جس سے سب کی رضایت تعلق رکھتی ہے یہ ہے کہ کس زاویہ نظر سے عام لوگوں اور خود اپنی طرف نظر کرتی ہے؟ اس نقطہ نظر سے کہ وہ لوگ غلام اور مملوک اور خود مالک و مختار ہیں؟ یا پھر اس نقطہ نظر سے کہ وہ لوگ صاحب حق ہیں وہ صرف وکیل، امین اور نمائندہ ہے۔

 

امام خمینی (رح) نے بھی ایران اسلامی میں اسی نظریہ کے ساتھ حکومت قائم کرنے کے لئے اقدام کیا۔ آپ اس کے بارے میں فرماتے ہیں: اسلامی حکومت کا کام قوم و ملت کی خدمت ہے اسے قوم کا خدمتگذار ہونا چاہیئے۔  حکومتیں اقوام کی خدمتگذار ہوں، چنانچہ اسلام میں سیرت تھی کہ حکومت لوگوں کی خادم تھی... حکومتیں لوگوں سے وجود میں آئی تھیں... اگر حکومتیں رسول اکرم (ص) اور ائمہ معصومین (ع) کی سیرت پر عمل کریں تو دنیا کے چپہ چپہ اور گوشہ و کنار میں سکون اور اطمینان ہونا، سب آسودہ خاطر ہوتے، سب سکون کی سانس لیتے اور کسی کو کسی سے خطرہ نہ ہوتا۔

 

حضرت علی (ع) نے حکومت کی جو منظرکشی کی ہے اس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آپ کے لئے حکومت مندرج ذیل اغراض و مقاصد کے اجراء کا ایک موقع تھا: انسانی کرامت کا احیاء اور اس کی پاسداری، اقتصادی رونق، امن و سلامتی کی ضمانت اور معاشرہ کے آسیب پذیر طبقہ حقوق کی ادائیگی۔

 

حضرت علی (ع) چونکہ حکومت کو ایک امانت سمجھ رہے تھے اس لئے اس سنگین ذمہ داری کے قبول کرنے سے انکار فرما رہے تھے۔ لیکن جب لوگوں کا اصرار بڑھا تو اسے قبول کرتے ہیں اور اس قبول کرنے کی اس طرح دلیل پیش کرتے ہیں:

اگر جم غفیر حاضر نہ ہوتے، اگر عالم اور آگاہ افراد سے خدا کا عہد نہ ہوتا کہ ظالم کی سیری اور مظلوم کی بھوک پر صبر نہ کریں تو میں اونٹ کی لگام اس کی کوہاں پر رکھ دیتا اور اس قافلہ کے آخری اونٹ کو اسی پہلے جام سے سیراب کرتا تاکہ تم جان لیتے کہ میں تمہاری دنیا کے لئے مکھی کے پر کے برابر بھی ارزش کا قائل نہیں ہوں۔

 

ای میل کریں