امام خمینی(رہ) کا مقصد فلسطینی تحریک کو مقبول اور اسلامی بنانا تھا:منوچہر متکی

امام خمینی(رہ) کا مقصد فلسطینی تحریک کو مقبول اور اسلامی بنانا تھا:منوچہر متکی

رمضان المبارک کا آخری جمعہ امام راحل کی یادگاروں میں سے ایک ہے جسے عالمی یوم قدس کے نام سے موسوم کیا گیا۔ اس وقت صیہونیوں اور غاصب بیت المقدس کی حکومت کو یہ گمان بھی نہیں تھا کہ وہ ایک ایسے دن تک پہنچ جائیں گے جب ان کے اندر کا پورا وجود ہی خطرے میں پڑ جائے گا اور یہ دن صیہونی حکومت کو مزید کمزور کرنے کا سبب بنے گا۔

امام خمینی(رہ) کا مقصد فلسطینی تحریک کو مقبول اور اسلامی بنانا تھا:منوچہر متکی

رمضان المبارک کا آخری جمعہ امام راحل کی یادگاروں میں سے ایک ہے جسے عالمی یوم قدس کے نام سے موسوم کیا گیا۔ اس وقت صیہونیوں اور غاصب بیت المقدس کی حکومت کو یہ گمان بھی نہیں تھا کہ وہ ایک ایسے دن تک پہنچ جائیں گے جب ان کے اندر کا پورا وجود ہی خطرے میں پڑ جائے گا اور یہ دن صیہونی حکومت کو مزید کمزور کرنے کا سبب بنے گا۔

امام خمینی پورٹل کی رپورٹ کے مطابق ایران کے سابق وزیر خارجہ ڈاکٹر منوچہر متکی  نے اپنے ایک انٹرویو میں یوم قدس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ رمضان المبارک کا آخری جمعہ امام راحل کی یادگاروں میں سے ایک ہے جسے عالمی یوم قدس کے نام سے موسوم کیا گیا۔ اس وقت صیہونیوں اور غاصب بیت المقدس کی حکومت کو یہ گمان بھی نہیں تھا کہ وہ ایک ایسے دن تک پہنچ جائیں گے جب ان کے اندر کا پورا وجود ہی خطرے میں پڑ جائے گا اور یہ دن صیہونی حکومت کو مزید کمزور کرنے کا سبب بنے گا۔

 متکی نے کہا کہ امام خمینی کے اس اقدام کے بارے میں کہا جانا چاہیے کہ امام خمینی جانتے تھے کہ اس انقلاب کی فتح کے بعد ان کے دشمن بیدار ہوں گے تب انہیں معلوم ہوگا  کہ دنیا میں ایک بہت بڑا زلزلہ آچکا ہے۔ اس لیے احتیاطی اقدام کرنا ضروری تھا۔عالم اسلام کے مسائل میں سب سے اہم مسئلہ جس پر توجہ مرکوز کی جا سکتی ہے اور اس کے لیے ایک کثیر الجہتی ہدف کا تعین کیا جا سکتا ہے وہ قدس ہے۔ قدس کا مقصد  صیہونی حکومت کو نشانہ بنانا ہے، جو ایک طرف مسلمانوں کے اتحاد کے لیے ایک کوڈ ورڈ بن سکتا ہے، جس میں کسی حد تک کامیابی ملی ہے۔

ڈاکٹر منوہر چہر متکی نے کہا کہ ہو سکتا ہے کہ اگر ہم یہ تشریح 40 سال پہلے کرتے تو یہ بات قابل فہم نہ ہوتی لیکن آج جب آپ اسرائیلی مظالم کے مقابلے میں اسلامی جہاد، حماس، حزب اللہ، یمن اور شام کے  میزائلوں کی گرج دیکھتے ہیں معلوم ہوتا ہے کہ امام نے کہاں تک تھی اور کس طرح انہوں نے اس مسئلے کا حل ڈھونڈا تھا ھا؟ امام کا مقصد اس تحریک کو مقبول بناتے ہوئے اسے اسلامی بنانا تھا۔ اس لیے اب آپ پورے خطے میں سنتے ہیں کہ اسلامی مقاوت یہاں تک کہ بائیں بازو کے فلسطینی گروہ بھی اسے عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ کیونکہ انہیں اس بات کا عالم ہوگیا ہے کہ اسلام ایک ایسی صلاحیت بن گیا ہے جو خطے میں مزاحمتی حلقوں کو ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ رہا ہے۔

متکی نے کہا فلسطین کی کہانی میں، میرے خیال میں امام نے سلمان رشدی کی طرح ایک چھوڑا، جس کا تجزیہ 35 سال بعد مقام معظم رھبری  کی تفسیر میں کیا گیا۔ رہبر انقلاب اسلامی  نے چند سال قبل فرمایا تھا کہ صیہونی حکومت 25 سال سے زیادہ نہیں چلے گی۔ کیونکہ مقام معظم رھبری نے امام خمینی (رہ) کے اس تیر کے راستے کو مکمل طور پر مشاہدہ کیا ہے۔

ای میل کریں