امیرالمومنین امام علی علیہ السلام کی زندگی پر طائرانہ نگاہ
مولانا سید علی ہاشم عابدی
مولی الموحدین، یعسوب الدین ، وصی رسول رب العالمین ، امیرالمومنین ، امام المتقین غالب کل غالب ، مطلوب کل طالب مولانا علی بن ابی طالب علیہ الصلوٰۃ و السلام روحی و ارواحنا و ارواح العالمین لہ الفداء اللہ کے ولی و حجت، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بلافصل خلیفہ اور وصی و وزیر ، انبیاء و مرسلین کے مددگار، جبرئیل امین کے آموزگار اور ہمارے پہلے امام ہیں ۔
صحابی رسولؐ جناب جابر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: أَوَّلُ مَا خَلَقَ اَللَّهُ نُورِي فَفَتَقَ مِنْهُ نُورَعَلِيٍّ ثُمَّ خَلَقَ اَلْعَرْشَ وَ اَللَّوْحَ وَ اَلشَّمْسَ وَ ضَوْءَ اَلنَّهَارِوَنُورَ اَلْأَبْصَارِ وَ اَلْعَقْلَ وَ اَلْمَعْرِفَةَ اَلْخَبَرَ (بحار الانوار، جلد ۵۴، صفحہ ۱۷۰)
اللہ نے سب سے پہلے میرے نور کو خلق کیا ۔ پھر اس سے نور علیؑ کو شگافتہ کیا۔ پھر عرش، لوح، سورج ، دن کا اجالا، آنکھوں کی روشنی ، عقل اور معرفت کو خلق کیا۔
مذکورہ روایت سے واضح ہوتا ہے کہ اللہ نے سب سے پہلے نور محمد ؐ کو خلق کیا اور اسی نور سے امیرالمومنین علیہ الصلوٰۃ و السلام کے نور کو شگافتہ کیا ۔ لہذا نور علی ؑ بھی نور اول اور مخلوق اول میں شامل ہے بلکہ احادیث قدسی کی روشنی میں رسول اسلام حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ہمراہ مولا علی ؑ بھی خالق کی معرفت اور مخلوقات کی خلقت کا سبب ہیں۔
مولا علی علیہ السلام کے والد ماجد محسن اسلام ، کفیل و حامی رسول ؐ ، کامل الایمان حضرت عمران جناب ابوطالب علیہ السلام ہیں اور والدہ ماجدہ مہمان کعبہ جناب فاطمہ بنت اسد بن ہاشم سلام اللہ علیہا ہیں ۔ آپؑ محسنہ اسلام ، ملیکۃ العرب ام المومنین جناب خدیجۃ الکبریٰ سلام اللہ علیہا کے بعد دوسری خاتون ہیں جنہوں نے اعلان اسلام کے بعد اپنے ایمان کا اعلان کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی کفالت و حمایت میں اپنے شوہر جناب ابوطالب علیہ السلام کی شریکہ کار و مقصد رہیں کہ جب آپؑ کی وفات ہوئی تو اللہ کے نبی ؐ نے اپنا پیراہن بطور کفن دیا اور فرمایا: ‘‘آج میری ماں رحلت کر گئیں۔’’
مولا علی علیہ السلام میلاد النبیؐ کے تیسویں برس 13؍ رجب المرجب سن 30 عام الفیل کو حرم الہی مکہ مکرمہ میں بیت الہی خانہ کعبہ میں پیدا ہوئے۔ مولود کعبہ ہونا آپؑ سے مخصوص ہے کہ نہ آپؑ سے پہلے کوئی کعبہ میں پیدا ہوا اور نہ ہی آپؑ کے بعد کوئی کعبہ میں پیدا ہوا ہے۔ روایت میں ہے کہ 13 ؍ رجب سن 30 عام الفیل کو جناب فاطمہ بنت اسد سلام اللہ علیہا نے درد کا احساس کیا تو اپنے گھر سے نکلیں اور مسجد الحرام میں پہنچیں ، دیوار کعبہ کے نزدیک گئیں اور دعا کے لئے اپنے ہاتھوں کو اٹھایا اور بارگاہ خدا میں عرض کیا: ‘‘خدایا! میں تجھ پر، تیرے رسولوں پر اور تیری نازل کردہ کتابوں پر ایمان رکھتی ہوں ، اسی طرح اس گھر کو بنانے والے میرے جد بزرگوار جناب ابراہیم خلیلؑ کی باتوں پر مکمل ایمان رکھتی ہوں۔ خدایا! تجھے تیرے گھر کے معمار ابراہیمؑ اور میرے شکم میں جو بچہ ہے اس کا واسطہ میری مشکل کو آسان کر دے۔’’ ابھی تھوڑی دیر نہ گذری تھی کہ وہاں موجود لوگوں نے دیکھا کہ خانہ کعبہ کی دیوار شگافتہ ہوئی اور بی بی ؑ اندر تشریف لے گئیں، آپؑ کے داخل ہوتے ہی دیوار کعبہ بند ہو گئی۔ خانہ کعبہ کے اندر امیرالمومنین علیہ السلام کی ولادت با سعادت ہوئی۔ تین دن ماں بیٹے خانہ خدا میں خدا کے مہمان رہے ، تین دن بعد لوگوں نے دیکھا کہ ایک مرتبہ پھر وہی دیوار شگافتہ ہوئی اور کنیز خدا اپنی آغوش میں ولی خدا کو لے کر باہر تشریف لائیں ، آپؑ کے باہر آتے ہی شگافتہ دیوار دوبارہ بند ہوگئی۔ باہر رسول خدا ﷺ نے آپؑ کا استقبال کیا۔ بی بیؑ نے فرمایا کہ ہاتف غیبی کی آواز سنی کہ اس بچے کا نام ‘‘علیؑ’’ رکھو۔
تین برس تک امیرالمومنین علیہ السلام اپنے والدین کے ہمراہ رہے اور ان تین برسوں میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی محبت و شفقت آپؑ کے شامل حال رہی ۔ جب آپؑ تین برس کے ہوئے تو مکہ مکرمہ میں قحط پڑ گیا ، لوگوں کے لئے زندگی سخت ہو گئی تو حضورؐ نے اپنے چچا عباس ؓ سے مشورہ کیا کہ ایسے موقع پر ہمیں اپنے چچا ابوطالب ؑ کی مدد کرنی چاہئیے ، جسکی جناب عباس ؓ نے تائید کی اورجناب ابوطالبؑ کے ایک فرزند کی مکمل کفالت کی ذمہ داری قبول کی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مولا علی علیہ السلام کی کفالت و تربیت کی ذمہ داری لی۔ جس کے بعد آپؑ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے یہاں رہنے لگے ۔
مولا علی علیہ السلام کی عمر جب دس برس ہوئی تو اللہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو مبعوث بہ رسالت کیا، خواتین میں سب سے پہلے اعلان ایمان کرنے والی ملیکۃ العرب ام المومنین حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا ہیں اور مردوں میں سب سے پہلے اعلان اسلام و ایمان اور حمایت اسلام کا وعدہ کرنے والے مولا علی علیہ السلام ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے پہلے دن تنہا نماز پڑھی لیکن جب دوسرے دن نماز کے لئے کھڑے ہوئے تو داہنی جانب امیرالمومنین امام علی علیہ السلام اور پشت پر ام المومنین حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کھڑی ہوئیں، جس سے واضح ہوتا ہے کہ اسلام کے پہلے نمازی بھی آپ ہی دونوں ہیں۔
دعوت ذوالعشیرہ میں مولاؑ نے جیسا وعدہ کیا تھا اسے تا حیات نبھایا ، مکہ مکرمہ کے پر آشوب ماحول میں بھی حضورؐ کے شانہ بہ شانہ چلے، شعب ابوطالبؑ کے تین سال کے سخت ترین حالات میں کہ جہاں اللہ والوں کو فاقے کرنے پڑے ، پیٹ کی آگ بجھانے کے لئے درختوں کے پتے چبانے پڑے، مولا علی ؑ ان تمام مشکلات میں حضورؐ کے ساتھ رہے اور راتوں میں اکثر بستر رسول ؐ پر لیٹتے تا کہ اگر دشمن حملہ کرے تو حضورؐ بچ جائیں اور آپؑ شہید ہو جائیں ۔ شعب ابوطالب ؑ سے نکلنے کے بعد بھی آپؑ کی فداکاری کا سلسلہ جاری رہا، آخر وہ بھیانک رات بھی آئی کہ جب دشمن نے چاروں طرف سے گھیر لیا تو حضورؐ نے حکم خدا سے ہجرت کی اور آپؑ حضورؐ کے حکم پر ان کے بستر پر سو گئے۔
مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ تشریف لائے تو حضورؐ نے حکم خدا سے اپنی اکلوتی بیٹی حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی شادی آپؑ سے کر دی۔ اللہ نے آپ ؑ کو امام حسن ؑ و امام حسین ؑ جیسے معصوم اور امام بیٹے عطا کئے اور جناب زینبؑ و جناب ام کلثوم جیسی عظیم بیٹیاں دیں جو کردار میں تصویر فاطمہ ؑ تھیں کہ جس طرح ماں نے ظالم حاکم کو چیلنج کیا اسی طرح بیٹیوں نے بھی ظالم حاکم کو اپنے خطبوں سے رسوا کیا۔ آپ ؑ کے ایک اور فرزند جناب محسن ؑ ہیں جنکو دشمنوں نے شکم مادر میں ہی شہید کر دیا تھا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مدنی زندگی میں 80 جنگیں ہوئی، سوائے جنگ تبوک کے ہر جنگ میں مولا علیؑ نہ صرف شریک ہوئے بلکہ ہر معرکہ میں دشمن کو شکست اور دین کو فتح آپ ؑ نے ہی دلائی۔ بدر میں کفار ومشرکین کو قتل کیا، احد میں جب بڑے بڑے شیطان کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے بھاگ گئے تو آپ ؑ ہی نے اکیلے حضورؐ کی جان بچائی، جنگ خندق میں کل کفر عمرو بن عبدود کو قتل کر کے جنگ کا نقشہ بدل دیا کہ حضورؑ نے فرمایا: ‘‘خندق کے دن علیؑ کی ایک ضربت ثقلین کی عبادت سے افضل ہے۔’’ صلح حدیبیہ میں صلحنامہ آپؑ نے ہی لکھا، خیبر میں جب فتح مسلمانوں کے بس میں نہ رہی تو حضورؐ نے فرمایا:
‘‘کل میں علم (اسلام) اس کو دوں گا جو کرار ہوگا، غیر فرار ہوگا، اللہ و رسولؐ سے محبت کرتا ہو گا اور اللہ و رسولؐ اس سے محبت کرتے ہوں گے’’ دوسرے دن علم اسلام حضورؐ نے مولا علیؑ کو دیا اور آپؑ نے جنگ کی، مرحب کو قتل کیا ، در خیبر کہ جسے چالیس لوگ کھولتے اور بند کرتے تھے اسے دو انگلیوں پر بلند کیا۔
مکہ کی فتح میں مولا علیؑ کا کردار ناقابل فراموش ہے، جنگ تبوک میں مدینہ کی حفاظت کی خاطر حضورؐ نے آپؑ کو یہ کہتے ہوئے روکا کہ ‘‘ائے علی! تم کو مجھ سے وہی نسبت ہے جو ہارونؑ کو موسیٰؑ سے تھی۔’’ مسجد النبی ؐ میں حکم خدا سے حضورؑ نے سب کے دروازے بند کرا دئیے اگر کوئی دروازہ کھلا رکھا تو وہ یا تو بیت نبی ؑ تھا یا بیت علیؑ تھا، سورہ برأت کی تبلیغ کی ذمہ داری اللہ نے اپنے رسولؐ کے ذریعہ آپؑ کو دی، آیت تطہیر آپؑ کی طہارت پر دلیل تو آیت مباہلہ آپؑ کی صداقت کا قصیدہ پڑھتی ہے، آیت ولایت آپؑ کی ولایت کی سند ہے، آخری حج سے واپسی پر غدیر خم میں حکم خدا سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے آپؑ کی ولایت کا اعلان کیا "من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ" اور لوگوں سے بیعت لی۔ جس پر قرآن نے دین کے کامل ہونے ، نعمتوں کے تمام ہونے اور دین اسلام سے خدا کے راضی ہونے کا اعلان کیا ۔ آپؐ حضورؑ سے اس قدر نزدیک رہے کہ ولادت کے بعد انکی آغوش میں آنکھیں کھولی اور جب حضورؐ دنیا سے جا رہے تھے تو سرکار ؐ کا سر مبارک مولا علیؑ کی آغوش میں تھا۔ رسول دنیا سے رخصت ہوئے تو بقول مولانا روم
اھل دنیا کار دنیا ساختند ۔۔۔۔۔۔۔۔ مصطفیٰ ؐ را بی کفن انداختند۔
مولا علی ؑ نے ہی حضورؐ کو غسل و کفن دیا ، نماز پڑھی اور دفن کیا۔ لیکن اب حالات بدل گئے ۔ ‘‘زاغ عندلیب ہوگئے۔۔۔۔مسخرے خطیب ہو گئے’’
اب علی ؑ کی شجاعت کا دور ختم ہوا ، صبر کا زمانہ آگیا ، یا حدیث نبوی کی روشنی میں یوں کہا جائے کہ اب تلوار چلا کر جہاد اصغر نہیں کرنا ہے بلکہ صبر کر کے جہاد اکبر میں کامیابی حاصل کرنی ہے۔ جس علیؑ کو غدیر میں مولا بننے کی مبارکباد دی تھی اور بعنوان مولا بیعت کی تھی اب اسی علیؑ سے بیعت کا مطالبہ ہے، گھر پر حملہ ہوا، دروازے کو آگ لگائی گئی، زوجہ گرامی جناب فاطمہؑ اور انکے بطن میں جناب محسن ؑ کو شہید کیا گیا۔ مولا علیؑ نے صبر کیا، 25 سال تک خاموشی کی زندگی بسر کی۔ 25 سال بعد ایک بار پھر دنیا آپؑ کے دروازے پر آئی کہ آپ بیعت لے لیں اور امت کی رہبری کریں تو آپؑ نے قرآن و سنت کے معیار پر بیعت لی۔ دنیا طلبوں نے جب اپنی دنیا کو خطرے میں دیکھا تو بیعت توڑ کر میدان جنگ میں اتر آئے اور چار سال چند ماہ کی حکومت میں جمل، صفین اور نہروان کی جنگ ہوئی۔ ایک جانب دشمنان اسلام تھے تو دوسری جانب دنیا طلب منافق اور تیسری جانب خوارج جیسے احمق ۔ لیکن ان تمام مشکلات کے باوجود آپؑ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرح نطام عدل قائم کیا ۔ نہ گورے کو کالے پر ترجیح دی ، نہ کالے کو گورے پر، نہ عرب کو عجم پر فضیلت دی ، نہ عجم کو عرب پر فوقیت دی۔ عدالت کا یہ عالم کہ غیر تو غیر سگے بھائی بہن بھی برداشت نہ کر پائے اور زبان پر شکوہ لے آئے۔ آدھی دنیا پر حکومت کے باوجود سماج کے سب سے نچلے طبقہ جیسی زندگی بسر کی، دو لقمہ روٹی سے زیادہ نہ کھایا کہ کہیں حجاز و یمامہ میں کوئی بھوکا نہ ہو، چار سال میں صرف چار وقت گوشت کھایا، کوفہ میں بطور عاریہ مکان لے کر زندگی بسر کی، اسی ایک معمولی لباس پر چار سال گذار دئیے۔
اسی کثرت عدالت کے سبب 19؍ رمضان سن 40 ہجری کو نماز صبح میں مسجد کوفہ میں آپؑ کے سر پر ضربت لگی اور آپؑ 21 ؍ رمضان سن 40 ہجری کو دنیا سے رخصت ہوگئے۔ شہادت کے بعد امام حسن ؑ و امام حسین ؑ نے حسب وصیت نجف میں دفن کیا جہاں بعد میں روضہ تعمیر ہوا اور آج بھی سالانہ کروڑوں زائرین آپؑ کی زیارت کے لئے جاتے ہیں۔