ہزار سنگر شہر

ہزار سنگر شہر کی قلعہ بندی کی کہانی

ابراہیمی نے کہا: "اس پر یقین کرنا مشکل ہو سکتا ہے، لیکن پاسداران میں سے بہت کم لوگوں کے پاس ہتھیار تھے، اور عام لوگ شہر کے دفاع کے لیے درانتی، بیلچے اور چنوں کے ساتھ آئے تھے

 

ارنا کے مطابق، آج سے تقریباً 40 سال قبل شہر آمل کی گلیاں خون آلود ہو گئیں۔ وہ خون جو سنگروں* کی تہہ سے بہتا ہے جہاں مرد و زن، بوڑھے، جوان اور نوجوان خالی ہاتھ اور ایک ابھرتے ہوئے آئیڈیل کا دفاع کرنے کے لیے منافقوں اور نفاق کے خلاف رکاوٹ بن کر ایک نوجوان انقلاب کی حفاظت کررہے تھے۔

 

1982ء  میں آمل سٹی بسیج کے سربراہ رجبعلی ابراہیمی نے ارنا کے رپورٹر کے ساتھ ایک انٹرویو میں 26/ جنوری کی بقا کا راز اور اس وقت کے لوگوں میں اتحاد کا بیان کیا اور آمل کے ہزار سنگر شہر بننے کی کہانی بیان کی۔ جو درج ذیل ہیں:

 

26/ جنوری کے دن جب مجھے آمل پر جنگلیوں کے حملے کا علم ہوا تو میں جلدی سے گاؤں سے آمل کے سابق تھانے چلا گیا۔ وہاں میں نے ناصر شعبانی مرحوم سے رابطہ کیا، جو سپاه پاسداران کے کمانڈروں میں سے تھے، جنہوں نے جنگلیوں کے خلاف جنگ میں اہم کردار ادا کیا، اس وقت اس نے مجھے پہلا حکم دیا کہ لوگوں کو سنگر بنانے کا کہا جائے۔ جب میں تھانے سے باہر نکلا تو میں نے دیکھا کہ لوگوں کا ایک بڑا گروہ دروازے پر کھڑا ہے اور گویا کسی حکم یا کسی چنگاری کا انتظار کر رہے ہیں۔

 

انہوں نے مزید کہا: اس وقت سڑک پر ایک پیک آپ تھی اور میں اس کے اوپر گیا اور لوگوں سے کہا کہ کمیونسٹ شہر میں داخل ہو گئے ہیں اور شہر کو بی آبرو کرنا چاہتے ہیں، جا کر سنگریں بنائیں۔ جب لوگوں کو اس واقعہ کا پتہ چلا تو وہ تیزی سے پورے شہر میں پھیل گئے اور مقامی لوگوں کی مدد سے سنگریں بنانا شروع کر دیں۔ یہیں سے خواتین اور لوگوں کی مدد سے آمل چند گھنٹوں سے بھی کم وقت میں ایک قلعہ بند شہر بن گیا۔

 

ابراہیمی نے کہا: "اس پر یقین کرنا مشکل ہو سکتا ہے، لیکن پاسداران میں سے بہت کم لوگوں کے پاس ہتھیار تھے، اور عام لوگ شہر کے دفاع کے لیے درانتی، بیلچے اور چنوں کے ساتھ آئے تھے۔ یہاں تک کہ خواتین نے کمروں کے گرد چادر باندھے اور سنگریں بنائیں۔ اس کہانی میں خواتین کا کردار بہت اہم تھا۔ اور 26/ جنوری داستان کی مٹھاس دشمن کے خلاف عوام کی یکجہتی اور اتحاد تھی۔

 

انہوں نے مزید کہا: لیکن میرے لیے 26/جنوری کی تلخی، شہید جعفر ہندوی اور مصطفی اسماعیلی کی شہادت تھی جو ایک رات پہلے دیوار پر نعره لکھنے میں مصروف تھے۔ اس وقت تمام گروہوں کا یہ رواج تھا کہ وہ اپنے پیغامات پہنچانے کے لیے دیوار کا استعمال کرتے تھے۔ فوجی وردی میں شہر میں داخل ہونے والے جنگجوؤں نے ان پر اچانک حملہ کیا اور آخر کار ان کے منہ میں گولی مار کر شہید کر دیا۔

 

*سنگر: fort، trench، stronghold

ای میل کریں