کل شب وہ عہد تازہ ہوا پھر بہ عقل و ہوش
جس پر تھے پچھلے سال ہم اور پیر مے فروش
احباب سب تو سوئے گلستاں چلے گئے
میں موسم بہار میں بیٹھا رہوں خموش
لو میں بھی اب دو ایک صنم سیم تن کے ساتھ
جاتا ہوں اٹھ کے جانب صحرا بہ ناؤ دوش
صد حیف! یہ حسین خداداد زندگی
ضائع کروں بہ دلق ریائی و دیگ جوش
ڈھونڈوں گا دامن بت مہوش میں اب پناہ
کچھ بھی تو دے سکا نہ مجھے شیخ خرقہ پوش
مکتب کی قیل و قال سے بھی کچھ نہ مل سکا
جز حرف دلخراش پس از شورش و خروش
اب کنج میکدہ میں کسی دلستاں کے ساتھ
بیٹھوں گا بند کر کے زمانے سے چشم و گوش
نکلے گا اب نہ کچھ لب '' ہندی'' سے دیکھنا
جز صحبت صفائے مے و حرف مے فروش