در میخانہ ہر ایک کے لیے باز اب بھی ہے
سینہ سوختہ میں سوز و گداز اب بھی ہے
بے نیازی ہے فقط عشق کی سرمستی میں
قدر ہستی فقط از روئے نیاز اب بھی ہے
چارہ کچھ دوری دلبر سے نہیں ، کھول نہ لب
اس کا بندہ جو ہے وہ بندہ نواز اب بھی ہے
راز کہنا ہوتو بس مست رخ یار سہ کہہ
یہ وہ منزل ہے کہ وہ محرم راز اب بھی ہے
چھوڑ دے چھوڑ دے سودا گری و بوالہوسی
دست عشاق سوئے دوست دراز اب بھی ہے
ہاتھ اپنا تو پہنچ پایا نہ تا دامن یار
اس کو مصروفیت عشوہ و ناز اب بھی ہے
اس کے کوچہ سے گزرنا جو نسیم سحری
عطر لے آنا کہ وہ غالیہ ساز اب بھی ہے