جام پٹکا در ساقی ہی پہ، خرقہ از دوش
ہاتھ سے درد گیا، سر سے روانہ ہوئے ہوش
کچھ شفا مجھ کو دم شیخ سے حاصل نہ ہوئی
شکوہ لے جاؤں گا اب پیش بت بادہ فروش
کچھ محقق کو خبر ہے، نہ ہے عارف پہ اثر
اب مرا ہاتھ ہے اور دامن پیر خاموش
علما حوزہ میں ، خلوت میں پڑے ہیں صوفی
میں کوئے یار میں حیرت زدہ و خانہ بدوش
مکتب و دیر و خرابات سے ہو آیا ہوں
ہوں در وعدہ گہ یار کا اب حلقہ بگوش
تو اگر صوفی و درویش کے نعروں پہ نہ جائے
دل سے خود آئے تری روح میں آواز سروش