تیر مژگاں میں ہیں، ابرو میں کماں ہے اب بھی
طرہ زلف دوتا عطر فشاں ہے اب بھی
ہم ہیں سوداگری و بوالہوسی میں مصروف
دلستانی کی ادا میں وہ رواں ہے اب بھی
ہے ہمیں سایہ سرو قد دلبر کی تلاش
اور وہ فکر کی آنکھوں سے نہاں ہے اب بھی
کیا کروں ہدیہ، کہ سر ہے مرے پاس اور نہ جاں
وہ سرا پائے ہمہ روح و رواں ہے اب بھی
اس کی شمع رخ زیبا کا میں پروانہ ہوں
حسن رخ اس کا عیاں تھا سوعیاں ہے اب بھی
سامنے فخر کریں ، اور ہمارے؟ قدسی!
واقف '' علم الاسماء'' زباں ہے اب بھی