یہ شب جو میری بانہوں میں ہے صورت عروس
رکھنانہ ایسے وقت دریغ از کنار و بوس
اے شب! عروس صبح کو بانہوں میں بھینچ لے
امشب کہ تنگ بانہوں میں خفتہ ہے یہ عروس
ہر گز نہ اپنے لب، لب شیریں سے میں ہٹاؤں
آنے دو بانگ صبح کو، آئے صدائے کوس
خورشید آ نہ جائے، رہ صبح بند کر
ہوگی نہ آج اذان ، اڑا دو سر خروس
امشب کہ میرے حال پہ وہ مہربان ہے
محرومیوں کا اپنی نہیں مجھ کو کچھ فسوس
اس سب کی صبح چاہوں تو کہنا نہ مے گسار
ہوگا، ہے میرا تخت سلیماں پہ گر جلوس
'' ہندی'' کہ تیرے کوچہ میں آیا ہے ہند سے
ہے ہیچ اس کو شاہی شیراز و ملک طوس